بندوں میں بندگی کے الگ الگ درجات — ریاض علی خٹک

0
42

آپ بازار جانے کیلئے جیب میں پیسے ڈالتے ہیں اپنی ضروریات کی چیزوں کی ایک لسٹ سوچتے ہیں اور گھر سے نکل جاتے ہیں. بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ آپ نے قیمت اور کہاں سے خریدنا ہے پہلے طے کیا ہو. اکثریت بس سوچتی ہے جہاں سے بہترین معیار اچھی قیمت ملی خرید لوں گا.

دکاندار بھی جب دکان صبح کھولتا ہے تو اسے کوئی گارنٹی نہیں ہوتی آج کیا اور کتنی فروخت ہوگی. کون آئے گا کون نہیں.؟ بازار اندازے پر چلتا ہے. گاہک کے پاس قوت خرید ہو اور دکاندار کے پاس چیز اور دروازہ کھلا ہو تو کاروبار زندگی چلتا رہتا ہے.

بازار میں گاہک بھی بہت ہوں اور دکانیں بھی بہت لیکن کسی ایک دکان پر زیادہ گاہک جا رہے ہوں تب ہم کہتے ہیں اس پر اللہ کا خصوصی کرم ہے. کیونکہ اس کی کوئی ایک ادا دوسروں سے بہتر ہوتی ہے. معیار اخلاق قیمت فروخت یا سروس آپ اسے کچھ بھی بول دیں لیکن جب گاہک گھر سے نکلتے فیصلہ کر لے کہ فلاں دکان پر جانا ہے تو یہ اللہ کا کرم ہوتا ہے.

اللہ رب العزت کی نعمتیں دنیا میں بکھری پڑیں ہیں. نعمتیں بھی بے شمار تو مخلوق خدا بھی بے شمار ہے. لیکن ہم جب اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو کسی ایک کے پاس نعمتیں دوڑ دوڑ کر آرہی ہوتی ہیں اور کسی کی آنکھیں انتظار میں ترس جاتی ہیں. تب اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں. گلے شکوے کرتے ہیں. جن پر نعمتوں کی برسات ہو ان سے حسد کرتے ہیں.

کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اداؤں پر غور کرتے ہیں. جو سوچتے ہیں ان پر کرم کیوں نہیں ہو رہا. دنیا ان سے راضی کیوں نہیں ہو رہی.؟ کیا نعمتیں بانٹنے والا اس سے راضی ہے.؟ یہی خود احتسابی یا Audit ہمیں پھر ہماری کمی کوتاہیاں دکھاتا ہے. اور یہی کمی بیشیاں جب درست ہو جائیں تو کرم کا دروازہ کھل جاتا ہے. اللہ رب العزت اپنے سب بندوں کا ایک یکساں پروردگار ہے. ہم بندوں میں البتہ بندگی کے الگ الگ درجات ہوتے ہیں.

ریاض علی خٹک

Leave a reply