بنگلا دیش میں سیلاب اور بھارتی میڈیا کا رویہ

0
58
bangla flood

بنگلا دیش میں سیاسی عدمِ استحکام ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک اور قدرتی آفت نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حالیہ سیلاب نے بنگلا دیش کے مختلف علاقوں میں تباہی مچا دی ہے، جس کے نتیجے میں 50 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور اب وہ کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ ان حالات میں عبوری حکومت سیلاب زدگان کی مدد اور امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے میں مصروف ہے، جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے۔سیلاب کے متاثرین کی مدد کرنا بنگلا دیشی حکومت کے لیے ایک مشکل کام ہے، لیکن اس سے بھی بڑا چیلنج بھارت کو اس بحران کا فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے اس بحران کے دوران منفی رپورٹنگ اور جانبداری پر مبنی خبروں نے صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔بھارتی میڈیا، خاص طور پر انڈیا ٹوڈے، نے بنگلا دیش میں ہندو برادری کے حوالے سے مختلف دعوے کیے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق، بنگلا دیش کے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ انہیں امداد کی فراہمی میں نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور انہیں محض ان کے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلا دیشی حکومت نے سیلاب کی امداد کے دوران ہندو برادری کو بُری طرح نظر انداز کیا ہے اور ان کے مسائل کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنگلا دیشی حکومت کی جانب سے سیاسی بحران کے دوران بھی ہندو برادری کو نظر انداز کیا گیا، اور اب بھی انہیں امداد کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سیلاب اور سیاسی بحران کے دوران بھارتی میڈیا کا رویہ غیرجانبدار نہیں رہا۔ ان رپورٹوں کا مقصد بھارت میں ہندو برادری میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھانا اور بحران کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اس قسم کی رپورٹنگ نے نہ صرف بنگلا دیش کی موجودہ مشکلات کو اجاگر کیا بلکہ بھارت میں بھی ایک منفی تاثر پیدا کیا۔
بنگلا دیش میں سیلاب کی موجودہ صورتحال ایک انسانی بحران کی عکاسی کرتی ہے، اور اس دوران بھارتی میڈیا کی جانب سے جاری کردہ رپورٹیں مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہیں۔ بنگلا دیشی حکومت کو اس بحران کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے کی جانے والی منفی رپورٹنگ کا بھی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ بین الاقوامی برادری اور میڈیا اپنی رپورٹنگ میں انصاف اور حقیقت پسندی کو مدنظر رکھے تاکہ متاثرین کو اصل مدد فراہم کی جا سکے اور بحران کی حقیقت کو درست طور پر پیش کیا جا سکے۔

Leave a reply