عصر کا وقت تھا فون کی گھنٹی بجی کال اٹھائی تو ماموں زاد مخاطب تھا۔ کہنے لگا عرفان بھائی ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے کہا یار میں مفتی تو نہیں بہرحال بتاؤ کیا ایشو ہے۔۔؟
گویا ہوا کہ ایک بچہ جو پیدا ہوا ہو اور اس کی کچھ دیر سانس اور نبض چلتی رہی ہو کیا اس کا جنازہ ہو گا۔۔؟
میں نے کہا ہاں یار جنازہ تو ہونا چاہیے اس کا حق ہے۔ تو جی ٹھیک کہہ کر کال بند کر دی۔
تھوڑی ہی دیر بعد دوبارہ اس کی کال آئی تو کہنے لگا کہ عرفان بھائی یہاں سب کہہ رہے ہیں کہ جنازے کی ضرورت نہیں ہے ، بچہ زندہ تھا ہی نہیں، جنازہ رہنے دیں۔۔۔!
میں نے کہا کہ یار آپ پریشان مت ہوں جنازے کی ترتیب بنا لیتے ہیں۔ تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ مجھے معاملہ تھوڑا گمبھیر لگا تو میں نے پوچھ لیا کہ یار اصل مسئلہ بتاؤ کہ کیوں نہیں جنازہ کرنا چاہ رہے۔۔؟
میرے اس سوال پر اس کے جواب نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔
کہنے لگا کہ عرفان بھائی سچ تو یہ ہے کہ امی کہتی ہیں کہ "جنازہ کروایا تاں برادری جھلنی پوسی” (جنازہ کروایا تو پوری برادری کو جھیلنا/ برداشت کرنا پڑے گا) جو کہ ہمارے لیے بہت مشکل ہے کیوں کہ مالی حالات خراب ہیں اور کام بھی کوئی خاص نہیں ہے۔
یقین مانیے اس کے ان الفاظ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔ مجھے یوں لگا کہ آسمان سے بجلی برسے یا زمین پھٹ جائے اور میں اس میں ریزہ ریزہ ہو جاؤں۔۔
کیوں۔۔؟
کیونکہ اس کی برادری میں ہوں، اس کی برادری آپ ہیں، اس کی برادری ہم سب ہیں۔
یہ ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے کہ بندہ فوت بعد میں ہوتا ہے پورے خاندان کےلئے بوریا بستر اور کھانے کی ٹینشن لواحقین کو پہلے لاحق ہو جاتی ہے۔ اور یہ اس کا آخری درجہ ہے کہ آج ایک معصوم جان کو بغیر جنازے کے دفن کیا جانے لگا تھا کہ "برادری جھلنی پوسی”
بہرحال میں نے اسے کہا کہ پریشان مت ہو، ہم جنازہ پڑھیں گے اور بے شک برادری کو مت پوچھنا، کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی سنت ہے کہ ایک دفعہ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا فوت ہوا جو ابھی چھوٹا تھا تو آپ نے ان کے گھر جا کر صرف گھر والوں کو شامل کیا اور نماز جنازہ ادا کر لی۔
اور ہاں اگر برادری کو خبر دینی ہی ہے تو مجھے بتانا میں انتظامات کروا لیتا ہوں۔۔ لیکن اسے اللہ نے سمجھ دی ،میں بھی کچھ دیر میں ان کے گھر پہنچا، کچھ ان کو سمجھایا جو اللہ نے توفیق دی اور پھر ہم نے رات عشاء کے بعد اس کے قریبی ترین تقریبا بیس لوگوں کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی۔
معزز قارئین یہ ایک کہانی ہے آپ اگر آنکھیں کھولیں تو ایسی ہی ہزاروں کہانیاں میرے اور آپ کے اردگرد روز رونما ہوتی ہیں ، لوگ مرگ پر پریشان حال ہوتے ہیں کہ کفن دفن تو درکنار برادری کو قورمہ کہاں سے کھلائیں گے۔؟ ان کے رہنے کا کیا بند و بست ہو گا۔۔؟
خدارا غریب کےلئے موت کوبھی آسان کیجیے ایسا نہ ہو کہ غریب کہیں اس رواج کے ڈر سے اپنے مردے دفنانا ہی نہ چھوڑ دے یا قریب المرگ لوگوں کو اولڈ ہاؤس کے حوالے کرنا، ایدھی ہومز کے حوالے کرنا یا کسی روڑھی پر پھینکنا نہ شروع کر دیں۔ اور یاد رکھیں کہ اگر ایسا ہوا تو اس میں میرے اور آپ کے سمیت ہم سب مجرم ہونگے۔ تو آئیے آج سے عزم کیجیے کہ ایک تو کسی بھی مرگ پر گوشت نہ پکے ، پھر آپ اپنی حیثیت میں فوتگی والے گھر سے کھانے کا بائیکاٹ شروع کریں اور تیسرا یہ کہ اس تحریر کو پڑھنے والا ہر فرد اپنی اپنی فیملی ، محلے یا گاؤں میں ایسی کمیٹی بنائے جو لوگوں کو فوتگی کے موقعہ پر سہولیات دے کہ شہر سے باہر سے آئے مہمانوں کا کھانا ، میت کا کفن ، دفن ، قبر کا بند و بست اور ضروری معاملات نپٹانے سے اس فیملی کو بے فکری ہو تا کہ آئندہ کوئی فرد یہ کہہ کر جنازے سے انکار نہ کر سکے کہ "برادری جھلنی پوسی”
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved