نجی تعلیمی ادارے مافیا نہیں مسیحا ہیں تحریر: آصف علی یعقوبی

0
85
تعلیمی ادارے بند کریں گے یا نہیں؟ این سی او سی اجلاس میں کیا بات ہوئی،بڑا فیصلہ

 

 نجی تعلیمی اداروں کے بارے میں اکثر کم پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے مافیا جیسے خطرناک الفاظ استعمال کرنا یا تو لاعلمی ہے یا منافقت۔ منافقانہ رویوں کو تو کسی تحریر یا کالم سے نہیں بدلا جاسکتا لیکن لاعلمی کو علم و تحقیق کے بعد ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں معاشرے کے ایسے چیزوں کے بارے میں حقائق پیش کرسکوں جس سے اکثریت کو لاعلم رکھا جاتا ہے اور میرا یہی قدم اصل میں علم کا لبادہ اوڑھے منافقین کے خلاف قلمی جہاد ہے۔ اس کالم میں میں تحقیق اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے مافیا نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے ایسے ادارے ہیں جنہوں نے عوامی مقبولیت کی وجہ سے پاکستان میں "پبلک سکولز” کا درجہ حاصل کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے لفظ مافیا کی تعریف کروں گا تاکہ سمجھنے والے حضرات منافقین کی تعلیم دشمنی کو سمجھ سکیں۔  مافیا خطرناک ترین جرائم کے مرتکب لوگوں کے ایک منظم گروہ کو کہا جاتا ہے۔ جیسے معاشرے میں تعلیمی لبادہ پہنے ایسے لوگ جو ملک کے بہترین تعلیمی نظام چلانے والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کیخلاف پروپیگنڈے کرکے ان کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اصل میں یہی مافیا ہیں۔ کیونکہ تعلیم جرم نہیں بلکہ تعلیم کیخلاف اکھٹے ہونا جرم عظیم ہے۔ نجی تعلیمی ادارے تو ملکی معیشت کو بہتر بنانے، بے روزگاری کو کم کرنے، معیاری تعلیم دینے، مستحق غریب اور خصوصاً یتیم بچوں کو مفت تعلیم دینے اور اس طرح کے دوسرے کار خیر میں حصہ ڈالنے کے حوالے سے سب سے بڑے مسیحا کے روپ میں موجود ہیں۔ محکمہ تعلیم خیبر پختونخواہ اور پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق اس وقت صوبے میں 8782 پرائیویٹ سکولز ہیں جن کی کل آمدن 2 ارب 90 کروڑ 43 لاکھ روپے ہیں۔ ان سکولوں کا کل خرچہ 2 ارب 41 کروڑ 71 لاکھ روپے ہیں۔ یعنی اگر ان تعلیمی اداروں کا اوسط معلوم کیا جائے تو ایک  سکول کا سالانہ آمدن تقریبا” 55 ہزار روپے بنتا ہے۔ تعلیم دشمن مافیا ان نجی سکولز کیخلاف یہ پروپیگنڈے کرتے ہیں کہ وہ فیس بہت لیتے ہیں تو ان کو حکومت سے جاری ہونے والے یہ اعداد و شمار بھی جاننے چاہیئے کہ ان 8782 رجسٹرڈ تعلیمی اداروں میں 6 ہزار 9 سو 35 ادارے ایسے ہیں جن کی فیسز 500 سے 2000 تک ہیں۔ 10 ہزار فیس لینے والے سکولز 104، 15 ہزار فیس لینے والے 23 جبکہ 40ہزار تک فیس لینے والے سکولز کی تعداد 5 ہیں۔ ان محدود وسائل میں اگر تعلیمی کارکردگی کی بات کی جائے تو نجی تعلیمی ادارے پرائمری سطح پر 40 فیصد جبکہ ہائی سطح پر 60 فیصد بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرکے سرکار کی مدد کرتی ہے۔ فلاحی طور پر بھی یہ ادارے ہزاروں مستحق یتیم اور غریب بچوں کو مفت تعلیم اور کتب فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ گشتہ 4 سال سے ایسے 90 ہزار بچوں کو بھی راضی کرکے مفت تعلیم دے رہے ہیں جنہوں نے مکمل طور پر سکول چھوڑا تھا۔ نجی تعلیمی ادارے بیروزگاری کے اس طوفان میں بھی صرف خیبر پختونخواہ میں 1 لاکھ سے زیادہ افراد کو باعزت روزگار دیکر ریاست کو معاونت  فراہم کر رہے ہیں۔ ان چند تحقیقی سطوروں سے واضح ہوگیا کہ نجی تعلیمی ادارے وطن عزیز میں ایک روشن اور تعلیم یافتہ پاکستان کی ضمانت اور وطن عزیز کے غریب عوام کے لئے مسیحا ہیں۔ ان اداروں کی خدمات کا اعتراف کرکے حکومت کو ایک قانون پاس کرنا ہوگا کہ تعلیم کے ان محسنوں کے لئے مافیا جیسے خطرناک الفاظ اور مخالف پروپیگنڈوں پر سخت پابندی عائد کریں اور عوام بھی ان تعلیمی اداروں کے ساتھ مکمل یکجہتی اور سپورٹ کا مظاہرہ کریں کیونکہ اگر 56 ہزار اوسطاً کمانے والے مافیا ہوگئے تو پھر معاشرے میں کروڑوں روپے کمانے والے کاروباری حضرات، لاکھوں روپے کمانے والے ڈاکٹرز اور ایک کیس کے ہزاروں،  لاکھوں روپے لینے والے وکلا تو مافیا کے باپ کہلانے کے قابل ہیں

Leave a reply