پشاور ہائیکورٹ نے تحریکِ انصاف کا انتخابی نشان "بلا” بحال کر دیا

0
347
bat

پشاور ہائیکورٹ،تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم ہونے کا معاملہ ،الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی

پشاور ہائیکورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم اور پارٹی نشان واپس لینے کے فیصلے کو عبوری معطل کردیا،عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا،عدالت نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا،پشاور ہائی کورٹ نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔

وکیل تحریک انصاف بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 2 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کو تسلیم کیا، الیکشن کے انعقاد میں کوئی بے ضابطگی کا نہیں کہا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست جبکہ اس کے انعقاد کرنے والے پر اعتراض کیا، الیکشن کمیشن نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی سے انتخابی نشان لیا، اب ہم الیکشن میں بطور پارٹی حصہ نہیں لے سکتے،مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں، سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کردیا گیا، انتخابی نشان سیاسی پارٹی کی پہچان ہوتی ہے، اسکے بہت سنجیدہ ایشو ہوں گے،انتخابی نشان کے بغیر امیدوار میدان میں نہیں اُترسکتے، ریزرو سیٹ بھی اقلیتی امیدوار کو نہیں مل سکتی ،جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کیلیے جنرل سیکرٹری کے کمیشن بنانے پر اعتراض کیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو صحیح جبکہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کیجانب سے کمیشن کی تقرری پر اعتراض کیا ، علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کو سوالیہ نشان بنانے کا اختیار نہیں ،الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں ،پولیٹکل پارٹیز ایکٹ اور الیکشن ایکٹ واضح ہے اور ان میں اختیارات کا تعین ہے ،

جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ میں نے فیصلہ نہیں پڑھا، کیا صرف یہی لکھا ہے کہ الیکشن کرانے والے کی تعیناتی غلط ہے،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بالکل الیکشن کمیشن نے یہی لکھا ہے، الیکشن کمیشن پارٹی میں تعیناتیوں پر سوال نہیں اٹھا سکتا، الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کرسکتا، اگر الیکشن کمیشن کو یہ اختیارات دیئے گئے تو آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہوگی۔الیکشن کمیشن کے پاس کسی بھی سیاسی پارٹی کے عہدیدار کی تقرری ، انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں ، الیکشن کمیشن کے پاس کورٹ کی طرح اختیارات نہیں ہیں ، الیکشن کے حوالے سے معاملات سول کورٹ باقاعدہ ٹرائل کے بعد طے کرتا ہے، 8 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جنہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض نہیں کیا ،عدالت نے استفسار کیا کہ اگر سیکرٹری جنرل مستعفی ہوجائے تو کیا ہوگا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عہدے سنبھالا لیتا ہےاس وقت عمر ایوب تھے،جسٹس کامران حیات نے کہا کہ کیا اسد عمر نے استعفیٰ دیا اور وہ منظور ہوا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی بالکل ، جنوری میں اسد عمر گرفتار ہوئے اور جب واپس آئے تو استعفیٰ دیا، اسد عمر کے بعد عمر ایوب جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے،

جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواستگزار کون ہیں ؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواست عام شہریوں کے طور پر دی گئی ،کسی بھی سیاسی پارٹی کو صرف سپریم کورٹ نکال سکتی ہے الیکشن کمیشن کمیشن نہیں، جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی کے آئین و رولز میں انٹرا پارٹی انتخابات کا کیا طریقہ کار ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ بیلٹ پر ہوگا، رجسٹرڈ ووٹرز ہی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں ، ، انٹرا پارٹی انتخابات رولز ہم نے بنائے ہیں ہم ہی اپ ڈیٹ کرینگے،الیکشن کمیشن ڈائریکشن نہیں دے سکتا، جسٹس کامران حیات نے کہا کہ الیکشن کمیشن یہ کہ رہی ہے کہ آئین کے مطابق الیکشن نہیں ہوا،آپ یہ کہنا جاتے ہیں کہ اگر الیکشن نہیں کروائیں گے تو پھر پارٹی جرمانہ ہوگا، علی ظفر نے کہا کہ یہاں تو اس سے بڑا فیصلہ ہوا ہے اور پارٹی کو الیکشن سے ہی باہر نکال دیا،ایک طرف ہمیں کہا جاتا ہے کہ 20دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں دوسری جانب اعتراض کررہے ہیں ، انٹرا پارٹی کے خلاف 14بندوں نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی ایک بھی پارٹی ممبر نہیں تھا، الیکشن کمیشن کو بتایا کہ درخواستگزار پی ٹی آئی ممبر شپ کو کوئی ثبوت دیں ، اگر انتخابی نشان نہیں ملا تو ہمیں اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں ملے گی، 30دسمبر اسکروٹنی کا آخری دن ہے ہمیں نشان الاٹ کیا جائے،

جسٹس کامران حیات نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آج نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ ڈویژنل بینچ کا کیس ہے،پی ٹی آئی کی آج ہی درخواست پر فیصلہ کرنے کی استدعا پشاور ہائیکورٹ نے مسترد کر دی،انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کچھ دیر کا وقفہ کر دیا گیا، بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے، عدالت نے کہا کہ سرکاری وکلاء کو وقفے کے بعد سنتے ہیں.

دوبارہ سماعت ہوئی جسٹس کامران حیات میاں خیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے کہاکہ آپ ادھر ادھر جاتے ہیں جو سوال کیا ہے اس پر آ جائیں،وکیل نے کہاکہ پارٹی کو نشان تب الاٹ ہوتا ہے جب وہ الیکشن کرائے اور سرٹیفکیٹ جمع کرائے،جسٹس کامران نے کہاکہ الیکشن شیڈول جاری ہو گیا ہے اب تو نشان نہیں روک سکتے،الیکشن شیڈول جاری ہو گیاہے نشان دینا ہوگا،

قبل ازیں تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کوپشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا، درخواست میں پی ٹی آئی کے وکلاء نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے استدعا کی ہے،تحریک انصاف کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کرانے کے طریقے پر فیصلے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے پارٹی ممبر ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان بلا بھی واپس لے لیا ہے،تحریکِ انصاف نے اپنی درخواست میں الیکشن اور انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا ہے،عدالت سے سینئر ججز پر مشتمل بینچ بنانے اور درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ہے،

پشاور ہائی کورٹ نے ہمیشہ انصاف کا سر اونچا کیا ، بیرسٹر علی ظفر
پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا بلے کا نشان بحال کردیا ہے، عدالت نے حکومتی وکیل سے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے کس شق کے تحت فیصلہ کیا؟ یقین ہے ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوتا ہے، التجا کرتا ہوں کہ آئین و قانون پر یقین رکھیں،پشاور ہائی کورٹ نے ہمیشہ انصاف کا سر اونچا کیا ہے عدالت نے الیکشن کمیشن کے بلے چھیننے کے آرڈر کو معطل کردیا ہے اور کہا کہ بلے کا نشان واپس کیا جائے،

تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان نے پشاور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا تھا اور بلا ہی رہے گا،بانی پی ٹی آئی چیئرمین تھے اور رہیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں سپریم کورٹ بھی توہین عدالت کا کیس دائر کرنے جا رہے ہیں، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا، اس کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ ہو گا، پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ پری پول ریگنگ ہو رہی ہے، امیدواروں سے کاغذاتِ نامزدگی تک چھینے گئے

قبل ازیں تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر شیر افضل مروت نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلا پی ٹی آئی کا نشان تھا اور رہے گا،پرویز خٹک کے بیان کا نوٹس لینا چاہیے، بیٹ کا نشان صرف الیکشن کمیشن ہی آفر کر سکتا ہے،بیٹ کا نشان آفر کرنے کی ضرورت کیوں تھی؟ پرویز خٹک نے تو تحریک انصاف کے مقابلے میں اپنی پارٹی بنائی ہے، پرویز خٹک کے بیان سے ان کے اور الیکشن کمیشن کے تانے بانے ملتے ہیں،بانی پی ٹی آئی نے این اے 32 پشاور سے الیکشن کے لیے مجھے نامزد کیا تھا، اپنے حلقے لکی مروت سے بھی قومی اسمبلی کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں، الیکشن کہاں سے لڑنا ہے یہ فیصلہ پارٹی کرے گی

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہ کرانے پر بلے کا نشان واپس لے لیا تھا،عام انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے ہیں ، تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ ان کو بلے کا نشان واپس مل جائے، بلے کا نشان واپس نہ ملنے کی صورت میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد الیکشن لڑنا پڑے گا.ایسے میں سب امیدواروں کے انتخابی نشان مختلف ہوں گے.ہم عوام پاکستان پارٹی نے بھی الیکشن کمیشن سے بلے کا نشان مانگ رکھا ہے ، وہیں ن لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو بلے کی بجائے گھڑی کا انتخابی نشان دیا جائے تا کہ سب کو پتہ چلے کہ یہ گھڑی چور ہیں

لطیف کھوسہ، چیئرمین سینیٹ بھی لڑیں گے الیکشن، کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ جاری

عام انتخابات،سیاسی رہنمامیدان میں آ گئے،مولانا،نواز،بلاول،شہباز کہاں سے لڑینگے الیکشن؟

 الیکشن کمیشن کو تمام شکایات پر فوری ایکشن لیکر حل کرنے کا حکم

کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت میں 2 دن کا اضافہ 

ن لیگ کے محسن رانجھا نے پی ٹی آئی والوں پر پرچہ کٹوا دیا .

نواز شریف پر مقدر کی دیوی مہربان،راستہ صاف،الیکشن،عمران خان اور مخبریاں

عام انتخابات کے دن قریب آئے تو تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ 

Leave a reply