لہجے کو ذرا دیکھ جوان ہے کہ نہیں ہے
بالوں کی سفیدی کو بڑھاپا نہیں کہتے
ایک سوال اکثر ہمارے اذہان میں ابھرتا ہے کہ آخر بڑے شخص کی تعریف کیا ہونی چاہیے بڑے شخص سے کیا مراد ہے۔؟ ایک صاحب جاہ و ثروت بھی بڑا شخص ہو سکتا ہے، ایک عالی دماغ فلسفی بھی بڑا شخص مانا جا سکتا ہے، ایک نازک خیال شاعر،ایک عالم متبحر،ایک کامل سیاستدان ،یہ سب بڑے شخص ہو سکتے ہیں۔۔۔لیکن در حقیقت جسے بڑا شخص مانا اور سمجھا جاتا ہے وہ،وہ ہے جو اپنے افکار سےدلوں میں ولولہ ،دماغوں میں جلا اور خیالات میں انقلاب پیدا کر دے قوم کو تاریکی کی دلدل سے نکال کر اجالے میں لے آئے پستی و ذلالت سے موڑ کر اس راستے پر لے آئے جسے "صراط مستقیم”کہا جاتا ہے۔
دیگر بڑے لوگوں کی طرح خلقِ خدا اور خصوصا کشمیریوں کی یہی خدمت "سید علی گیلانی”نے "آزادی کا نعرہ”بلند کر کے انجام دی۔انہوں نے بھارتی حکمرانوں کے بنائے ہوئے خوف کے بت کو توڑا۔غلامی کے خیالاتِ باطلہ کے بتوں کو پاش پاش کیا اور اذہان کو ایک مکمل آزادی سے روشناس کروانے کا بیڑا اٹھایا۔یہ انقلاب محترم سید علی گیلانی نے اپنے حیاتِ آفرین خیالات سے برپا کیا۔
قیام پاکستان اور بانیء پاکستان کی آنکھیں بند کرنے کے بعد بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبصہ کر لیا بھارتی حکام ریاست جموں کشمیر کا آزادی کا حق تسلیم کرنے سے انکاری ہو گئے انھون نے کشمیر کی اس تاریک زمین پر مہتاب کو چمکنے سے روک دیا لیکن وہ اس حقیقت کو پسِ پشت ڈال چکے تھے کہ تاریکیاں اور اندھیرے جتنے گہرے ہوتے ہیں آخر ایک روز چھٹ جایا کرتے ہیں۔ہر شب کے بعد سحر قدرت کا حکم ازل ہے۔ کبھی مٹھی کے طاقچے میں روشنی کو قید نہیں کیا جاسکتا۔لیکن پھر بھی وہ اپنے پراگندہ عزائم کی پرورش میں مصروف رہے۔اقوامِ متحدہ اور پوری دنیا کے سامنے کیے ہوئے وعدوں سے مکر گئے۔کیونکہ وہ اس حقیقت سے نابلد تھے کہ خدا نے اس مظلوم قوم کی آہیں سن لی ہیں ان پر قبولیت کی مہر ثبت کر دی ہے۔اور جموں کشمیر کو سید علی گیلانی کی صورت(29ستمبر 1929ء) ایک ایسا بیٹا عطا کیا جو اپنی آخری سانس تک آزادی کی جنگ لڑے گا۔
جموں کشمیر کے سیاسی رہنما جن کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔اپنے تعلیمی دورانیے میں جب وہ اورینٹل کالج لاہور آئےتو اس وقت جماعت اسلامی کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور پھر جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی وطن کشمیر لوٹے تو باقاعدہ جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی جماعت کے چوٹی کے رہنماووں میں آپ کا شمار ہونے لگا۔
آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جماعت اسلامی میں ممبری کے ساتھ معروف عالمی فورم”رابطہ عالم اسلامی”کے بھی رکن رہے۔گیلانی یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلی کشمیری جانباز تھے۔فکرِ حریت کی شمع جلانے والے یہ عظیم محسن کشمیریوں کے اذہان کو آزادی کی جانب متوجہ کرنے والے ایک متحرک اور سرگرم رکن تھے جنھوں نے ہمیشہ بھارتی حکام اور افواج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آزادی کا نعرہ لگایا کرتے یہی وجہ ہے کہ آپ کشمیریوں کا مضبوط بازو بنے اور جدوجہد آزادی کے لیے”تحریک آزادی”کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا جسے آگے چل کر بہت شہرت ملی اور یہ کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔
آزادی اور جدوجہد کے اس استعارے کو بھارت سرکار نے خریدنے کی بارہا کوشش کی ہر اوچھا ہتھکنڈا عمل میں لایا گیا ہر حربہ آزمایا گیا مگر یہ بہادر ٹس سے مس نہ ہوئے اور ڈٹے رہے۔دباؤ جس قدر بڑھتا گیا گیلانی کا جزبہ حریت پختہ اور مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔
سید علی گیلانی کی زندگی میں کئی مواقع ایسے آئے جب وہ اپنے لیے ایک پرسکون اور مراعات پسند زندگی کا انتخاب کر سکتے تھے اور کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی آواز کا گلا گھونٹ سکتے تھے لیکن آپ نے اپنی ذات پر کشمیریوں کی آزادی کو ترجیح دی اور ڈنکے کی چوٹ پر کشمیریوں کے حق کے لیے ڈٹے رہے۔پوری زندگی بھارتی مظالم اور ریاستی جبر کے سامنے سینہ سپر رہے لیکن کبھی جھکے نہیں بھارتیوں کو یہ باور کروا دیا کہ اس سپوت کا تعلق اس نبی کی امت سے ہے جو جام شہادت تو بخوشی پی لیتی ہے،سر تو کٹا سکتی لیکن سر جھکاتی نہیں۔ جیتے ہیں تو شان اور آن سے اور جب اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو دنیا والے ان پر رشک کرتے ہیں۔
سید علی گیلانی، اقبال کی مردِ مومن کی تمام صفات اپنے اندر لیے ہوئے تھے۔ اقبال کے اس مرد مومن نے زندگی کی نوے بہاریں دیکھیں جن میں بیشتر حصہ کشمیریوں کے حوصلے بلند کرنے ،آزادی کی پہچان کروانے،مقدمے بھگتنے،جیلیں کاٹنے اور نظر بندیوں کا سامنا کرتے گزارا لیکن پھر بھی آزادی کے مطالبے سے منہ نہ موڑا۔ غلامی کی زندگی کو توہینِ زندگی قرار دیتے رہے اور اس ظالم سامراج سے ٹکر کی جس کی ظلم وبربریت کے پیشِ نظر یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پسپا ہو سکتا ہے اس سب کے باوجود حریت پسند رہنما آزادی کے جذبے سے سرشار تھے ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہ آئی اور ہمیشہ اس نعرے کی صدا لگاتے رہے۔
"اسلام کی نسبت سے، اسلام کے تعلق سے،اسلام کی محبت سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے”
یہ دین اسلام سے محبت اور جذباتی لگاو تھا اور ان کا یہ جملہ ان کے ملت اسلامیہ کے تصور کو پوری طرح اجاگر کرتا ہے۔
ہمت ،جرات،شجاعت اورعزم واستقلال کا پیکر،جدوجہد کااستعارہ،بابائے آزادی سید علی گیلانی کشمیریوں کو روتا چھوڑ اس جہان فانی سے پردہ فرما گئے۔وفا و اخلاص کا یہ پیکر آزادی کی تڑپ لے کر اس دنیا میں آئے اور لمحہء آخری تک اس تگ ودو میں مصروف رہے۔خود تو چلے گئے لیکن کشمیریوں کو آزادی کا شعور اور آدرش دے گئے جو قابض حکمرانوں کو کبھی چین کی نیند سونے نہ دے گا۔۔۔۔جب تک مقبوضہ جموں کشمیر کے لیے آزادی کا نعرہ بلند ہوتا رہے گا سید علی گیلانی کی آواز بھی کانوں کو سنائی دے گی۔
آپ کی کاوشوں، جدوجہد،اور عمل پیہم کو ہر پاکستانی کا سلام!
خداتعالی آپ کی لحد پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرے(آمین)
@IrfanSOfficial