ایک اندازے کے مطابق پچھلے چھے سالوں میں پاکستان میں 30 کے قریب صحافی اپنی جان گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ایسے ہیں جن پر بااثر اور کرپٹ لوگوں کی طرف سے ناجائز ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں کئی ایسے بھی صحافی ہیں جو حقائق اور کرپشن اور ظلم و زیادتی کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے دھمکیوں کا سامنا ہے اور ان صحافیوں کے خاندان آج فاقوں اور کسمپرسی کی حالت کو پہنچ چکے ہیں اور کئی ایسے بھی سینیئر ترین صحافی ہیں جنہوں نے اس ملک قوم اور معاشرے کے لیے اپنی زندگی لٹا دی مگر آج بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور میڈیا صحافتی اداروں سمیت وزارت اطلاعات اور حکومت سمیت کوئی بھی آن کو کسی قسم کی سپورٹ کرنے کو تیار نہیں ہے
حقیقت یہ ہے کہ اگر یہی فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی اپنی دو دن خبریں دینا ہی بند کردیں تو چینلز بند ہو جائیں گے اخبار تک نہیں چھاپے جاسکیں گے جبکہ ان میڈیا چینلز اور اخبارات کو شہرت اور بلندیوں پر پہنچانے والے ٹاپ سٹوری اور بریکنگ نیوز دینے والے سردی گرمی بھوک پیاس دن یا رات سفر اور دھمکیوں اور خطرات کے باوجود بریکنگ نیوز اور سٹوری دینے والے یہی فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کے ساتھ میڈیا مالکان کا رویہ دشمنوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویہ سے بھی بدتر ہے
جب صحافتی ادارے صحافی کو اس کی محنت کا کوئی معاوضہ یا تنخواہ نہیں دیں گے تو آخر مرتا کیا نا کرتا پھر مجبور ہوکر اس نے کسی کرپٹ کو بلیک میل کرنا ہے یا کسی بھی غلط کام کا حصہ بن جانا ہے یا پھر اچھے سچے پڑھے لکھے لوگ صحافت چھوڑتے جائیں گے اور کرپٹ اور برے لوگ صحافت میں گھستے چلے جائیں گے یا پھر مجبور ہوکر فیلڈ میں کام کرنے والے بے روزگار صحافیوں نے کچھ نا کچھ تو کرنا ہے اپنے گھر کا چولہا جلانے اور بچوں کو پالنے کے لیے۔ ہمارے پاکستان میں سب سے زیادہ آج کا صحافی ہی مظلوم ہے جو درحقیقت سب سے زیادہ معاشی استحصال کا شکار ہے اور جھوٹ کا پردہ اوڑھ کر زندگی گزار رہا ہے۔
پاکستان میں صحافت کے سسٹم اور حکومتوں اور محکمہ اطلاعات کی نااہلی یا منافقت یا اپنی ہی کرپشن کی وجہ سے آج تک اس شعبہ میں کسی قسم کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہوسکے ہیں
کیونکہ بڑے بڑے اخباروں اور ٹی وی چینلز کے مالکان جو سیٹھ نما دولت کے پجاری انسان اور اثرورسوخ والے ہیں ان کے خلاف اور فیلڈ میں کام کرنے والے بے روزگار صحافیوں کے لیے ستر سالوں سے کوئی اقدامات نہیں ہوسکے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ یہ میڈیا مالکان تمام حکومتوں سیاستدانوں بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ اور ججوں سمیت سب کے راز جانتے ہیں اور یہ کسی کے خلاف بھی اپنے اپنے اداروں میں موجود بڑے بڑے قابل لکھاریوں اور اینکرز جو کہ بے چارے اپنی نوکری بچانے کے لیے جب ان کو یہ میڈیا مالکان اشارہ کرتے ہیں تو حکومتوں بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مہم چلانا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان میڈیا کے سیٹھوں کو کوئی چھیڑنے کو تیار نہیں ہوتا ہے
کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں جس کی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے سیٹھ نما کرپٹ مالکان فیلڈ میں محنت کرنے والے صحافیوں کو تنخواہ مراعات تو دور کی بات ہے الٹا ان سے نمائندہ بننے کا ہزاروں لاکھوں روپے لیتے ہیں اور سالانہ ششماہی سہ ماہی بزنس اشتہارات کی مد میں علاوہ لیتے ہیں
اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ایک دن یہ پڑھے لکھے با کردار صحافی جو کسی کو بلیک میل کرنے کے لیے پگڑی نہیں اتارتے بلکہ پروفیشنل طریقے سے مثبت رپورٹنگ کرنے والے ہیں چھوڑتے چلے جائیں گے اور حقیقت میں بھی ایسے ہی بلیک میلر کرپٹ دونمبری کے سرپرست ظالم کے حمایتی صحافی ہم آپ سب کو ملیں گے یا نظر آئیں گے جو واقعی میں بلیک میلر یا کرپٹ یا ان کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرنے والے ہوں گے جبکہ مظلوم کمزور کےے ساتھ کھڑے ہونے والے حق سچ کا ساتھ دینے والے صحافی دور دور تک نظر نہیں آئیں گے جس کے بہت زیادہ منفی اثرات اس ملک پاکستان اور اس معاشرہ پر پڑیں گے کیونکہ جو ارباب اختیار تک سچ کو سو پردوں سے نکال کر باہر لانے والے سچے اچھے اور قابل صحافی نہیں ہونگے تو معاشرے میں ایک بہت بڑا بگاڑ پیدا ہوگا جو پھر کسی سے بھی ٹھیک نہیں ہو پائے گا۔
بظاہر تو ہم کو بلیک میلر فیلڈ کے صحافی نظر آتے ہیں مگر درحقیقت اصل بلیک میلر صحافتی اداروں کے یہ سیٹھ نما مالک ہوتے ہیں جو ان صحافیوں کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ ان کو کما کر کھلائیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک پاکستان کے خاص طور پر فیلڈ میں کام کرنے والے بے روزگار اور مظلوم صحافیوں کے لیے کچھ اچھے اور ٹھوس اقدامات کریں جس کی امید عمران خان اور فردوس عاشق اعوان مشیر اطلاعات سے آج ان کو لگ رہی ہیں اگر اب بھی ان فیلڈ میں کام کرنے والے بے روزگار مظلوم صحافیوں کی زندگی میں تبدیلی نا آئی تو شائد کبھی نا آسکے