بیٹی کے جنازے پرباپ کے رقص کی ویڈیو وائرل،کیا ہے حقیقت؟

ایرانی میڈیا پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر جس میں باپ اپنی بیٹی کے جنازے پر رقص کررہا ہے ،صارفین کی جانب سے اس ویڈیو کو ایران میں حالیہ حکومت مخالف مطاہروں سے منسوب کیا جا رہا ہے-

باغی ٹی وی : "العربیہ” کے مطابق ایران میں سوشل میڈیا پرجہاں ان دنوں مہسا امینی حکومت مخالف مظاہروں کی ویڈیوز نشر کی جا رہی ہیں وہیں ایک ایسی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ایک شخص کو اپنی فوت ہونے والی بیٹی کے جنازے پر رقص کرتے دکھایا گیا ہے۔

ایران میں زیرحراست خاتون کی پولیس کے تشدد سے موت "ناقابل معافی”…

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اس ویڈیو کے حوالے سے صارفین کی جانب سے مختلف کہانیاں جوڑی جا رہی ہیں خاص طور پر جب کچھ لوگوں نے اسے مہسا امینی کے قتل کے بعد حکومت کے خلاف جاری حالیہ مظاہروں سے جوڑا تو اسے بہت زیاہ شیئر کیا گیا-

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والد نے اس کی زندگی میں اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کی شادی میں ڈانس کرے گا مگربیٹی شادی سے قبل ہی فوت ہو گئی تھی چنانچہ والد نے اس کے جنازے پراپنا وعدہ پورا کیا۔

ایران: مظاہروں میں 17 افراد جاں بحق، امریکی پابندیاں لگ گئیں

یہ ویڈیو کئی برس پرانی ہےلیکن سچ یہ ہے کہ خبر رساں ایجنسی ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ایران میں ہونے والے مظاہروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ منظر ایک آذربائیجانی ٹی وی سیریز "Ata Ocaği” کے ایپیسوڈ 78 کا ہے۔ یہ واقعہ 8 جنوری 2018 کو یوٹیوب پر آذربائیجان کے قومی ٹیلی ویژن چینل Xezer TV کے ذریعےنشرکیا گیا تھا رقص کا کلپ ایپی سوڈ کے 18ویں منٹ میں قبرستان میں شوٹ کیا گیا تھا۔

اس کلپ میں میں اداکاری کا کردار قربان اسماعیلوف نے ادا کیا ہے، جس کا نام یوٹیوب ویڈیو پر کمنٹری میں بتایا گیا ہے اور اس کے فیس بک پیج پر پروگرام میں اس نےاپنے کام کے بارے میں پوسٹ کیا ہے۔

واضح رہے کہ مہسا امینی ایک بائیس سالہ نوجوان لڑکی تھی جسےایران کی مذہبی پولیس ’گشت ارشاد‘ نے13 ستمبرکوحجاب کے حکومتی ضوابط کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کےبعد اسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں امینی 16 ستمبر کوپولیس کی حراست میں انتقال کرگئی تھی۔ اس واقعے کے بعد ایران بھرمیں حکومت کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے۔

امریکہ اور ایران کے درمیان منجمد اثاثوں کے بدلے میں قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے

Comments are closed.