بھارت میں بابری مسجد کی طرح سینکڑوں سال پرانی تاریخی جامع مسجد شہید کئے جانے کا خطرہ‘ اہم ترین رپورٹ منظر عام پر

0
51

بھارت میں ہندوانتہاپسندوں کی جانب سے بابری مسجد کی طرح سینکڑوں سال پرانی تاریخی گیان واپی مسجد شہید کئے جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور مقامی مسلمانوں میں اس سلسلہ میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقہ وارانسی میں مشہور کاشی وشواناتھ مندر کو ارڈیڈار مندر سے جوڑنے کیلئے بڑا آپریشن کیا جارہا ہے اور پچھلے چند ماہ میں بڑی تعداد میں راستہ میں آنے والے مکانات اور دوکانوں کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ کہا جارہاہے کہ کاشی وشواناتھ مندر تنگ گلیوں میں چھپا ہوا تھا اسے گنگا کے ہلیا بائی گھاٹ سے جوڑنے پر ہندو بھگتوں کو یہاں آنے میں آسانی ہو گی۔ اس علاقہ میں تقریبا تین سو گھروں کے لوگ یہاں سے دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور ہو ئے ہیں۔

گھروں کو منہدم کرنے کی اس مہم کے دوران سینکڑوں سال پرانی تاریخی گیان واپی مسجد بھی خطرات سے دوچار ہو گئی ہے جسے ہندوانتہاپسند اپنے منصوبہ کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد او رمندر کے راستہ میں کھڑے ہو جائیں تو ہندوانتہاپسنداشارے کرکے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ دیکھو یہاں ایک مسجد بھی ہے۔ اس صورتحال پر مقامی مسلمانوں میں سخت خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ اس علاقہ میں بابری مسجد کی تاریخ کسی وقت بھی دہرائی جاسکتی ہے۔

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ہندوانتہاپسندیہ ہرزہ سرائی کرتے بھی سنائی دیتے ہیں کہ جیوتر لنگا کے ساتھ جو حقیقی مندر تھا اسے منہدم کر کے یہ مسجد بنائی گئی ہے اور مذکورہ جیوتر لنگا اب بھی اسی تاریخی مسجد کے اندر موجود ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندوﺅں کی یہ باتیں سن کر سخت پریشانی کے عالم میں ہیں۔ مسلمانوں کے کانوں میں ہندوﺅں کا یہ نعرہ بھی گونج رہا ہے کہ ”ایودھیاتو ایک جھانکی ہے‘ کاشی‘ متھرا بھی باقی ہے“۔ یہ نعرے اور ہندوانتہاپسندوں کے عزائم مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔

وارانسی کا یہ علاقہ جہاں کاشی ناتھ مندر کے قرب و جوار کو وسیع کیا جارہا ہے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقہ میں ہے اس لئے یہاں سینکڑوں سال پرانی تاریخی گیان واپی مسجد شہید کئے جانے کا اور زیادہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور سمجھا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ انہی کی سرپرستی میں ہو رہا ہے اور ہندوانتہاپسندوں کو بی جے پی اور اس کے لیڈروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح کلیان سنگھ کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے بابری مسجد کے اطراف و اکناف کے علاقے کوایودھیا کو ”خوبصورت“ بنانے کے نام پر صاف کیا تھا۔

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق تاریخی گیان واپی مسجد مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔

اگرچہ بی جے پی کے مقامی لیڈر مسلمانوں کو دلاسا دے رہے ہیں کہ یہ نریندر مودی کا حلقہ ہے اور یہاں 1992والی بابری مسجد شہید کرنے والی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی مگر مسلمان ہزاروں مسلمانوں کے قاتل بھارتی وزیر اعظم کے کردار سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے وہ ان کی کسی بات پر مطمئن نہیں ہیں۔

مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جنھیں یہاں سے جبری طور پر ہٹانے اور دوکانوں سے نکالنے کاکام کیاجارہا ہے وہ الگ کہانی ہے۔انہوں نے کہاکہ کئی نسلوں سے رہنے والے تین سو گھر وں کے لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کردیاگیاہے۔

وارانسی میں ایک سول سوسائٹی گروپ سانجھا سنسکرتی منچ نے کہاہے کہ شہری انتظامیہ کے پاس ناتو کوئی بلیوپرنٹ ہے اور نہ ہی وہ منصوبہ شیئر کرنے کی درخواست پر کوئی وضاحت پیش کر رہی ہے۔ اسی طرح ایک اور سماجی ورکر ولبھ چاری پانڈے نے کہاہے کہ ”ہم نے آرٹی ائی کے تحت تفصیلات مانگی تھیں مگراس پر بھی کوئی ردعمل نہیں آیا۔

Leave a reply