جنگی ناکامی کے بعد بھارتی حکومت کی بوکھلاہٹ، پاکستانی حمایت پر درجنوں افراد گرفتار

2 ہفتے قبل
تحریر کَردَہ

حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور جنگ میں شکست کے بعد بھارتی حکومت شدید دباؤ کا شکار دکھائی دے رہی ہے، جس کا اندازہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر کریک ڈاؤن سے لگایا جا سکتا ہے۔

باغی ٹی وی کے مطابق بھارتی پولیس نے ’آپریشن سندور‘ کے خلاف بیان دینے پر اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی خان محمودآباد کو دہلی میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق پروفیسر علی خان کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی یوتھ ونگ کے جنرل سیکریٹری یوگیش جھتری نے ریاست ہریانہ کے ضلع سونی پت میں شکایت درج کرائی، جس پر مقدمہ بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ ان پر بغاوت، فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے، مذہبی عقائد کی توہین اور تخریبی سرگرمیوں پر اکسانے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر علی خان نے 8 مئی کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بھارتی فوج کی نمائندہ کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف کرنے والوں کے "دوہرے معیار” پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا تھا کہ ایسے افراد کو بھی اسی زور سے اُن شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کرنا چاہیے جو ہجوم کے تشدد اور حکومتی نفرت انگیزی کا شکار بنے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر علامتی اقدامات زمینی حقائق میں تبدیلی نہ لائیں تو وہ محض منافقت بن کر رہ جاتے ہیں۔ان کے بیان پر ہریانہ اسٹیٹ کمیشن برائے خواتین نے نوٹس لیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ تبصرہ بھارتی مسلح افواج کی توہین اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

پروفیسر علی خان کی گرفتاری کے علاوہ، بھارتی پولیس نے پنجاب، ہریانہ اور دہلی میں ایک بڑے کریک ڈاؤن کے دوران یوٹیوبرز، ولاگرز اور طلباء سمیت کم از کم 30 افراد کو بھی گرفتار کیا ہے۔ ان میں نمایاں نام ٹریول ولاگر جیوَتی ملہوترا اور دیویندر سنگھ کے ہیں۔ جیوَتی ملہوترا، جو ’ٹریول وِد جو‘ نامی یوٹیوب چینل چلاتی ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے سفر کی ویڈیوز شیئر کیں اور مبینہ طور پر حساس معلومات پاکستانی حکام کو فراہم کیں۔ انہیں آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

گرفتار ہونے والے 25 افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے حالیہ جنگ کے دوران سوشل میڈیا پر پاکستان کی حمایت میں مواد شیئر کیا۔ ان الزامات کی بنیاد پر حکومت نے کارروائی کی ہے، جو بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزادیِ اظہار کے اداروں کے لیے باعث تشویش ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مبینہ فالس فلیگ آپریشن کے بعد خطے میں پاک بھارت کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا تھا۔ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان پر فضائی حملوں کا آغاز کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے 5 طیارے مار گرائے۔ 10 مئی کو پاکستان نے ’آپریشن بنیان مرصوص‘ کے تحت بھارت کے 26 فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت پر جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔

واضح رہے کہ بھارت میں اس وقت آزادی اظہار کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے، اور ملکی میڈیا پر بھی جنگ کے دوران پروپیگنڈا اور جھوٹے دعوؤں کا غلبہ رہا، جس کی عالمی اداروں نے بھی تصدیق کی ہے۔

کراچی: وزیراعلیٰ سندھ کی میزبانی میں وفاقی وزراء اور صنعت کاروں کا اہم اجلاس

لاہور: اپووا کی شاندارتقریب، آپریشن بنیان مرصوص کی فتح کا جشن اور نئے قائد کا انتخاب

بھارت:عمارت میں آگ لگنے سے بچوں سمیت 17 افراد ہلاک

Latest from بین الاقوامی