بگڑتی صورتحال اور سیاسی جماعتوں کا کردار — عاشق علی بخاری

0
46

کہا جاتا ہے کسی بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو بھی میری قبر میں ایک دن لیٹے گا اسی آدھی بادشاہت انعام میں دی جائے گی. ہر ایک کی نگاہیں راہ پہ لگی تھیں کہ اب کون اس اعلان کو قبول کرتا ہے. کہیں سے ایک بزرگ نے سنا کہ بادشاہ آدھی بادشاہی دینے لیے تیار ہے اور امتحان ایک رات کا ہے اور پھر میری کل ملکیت یہ ایک گدھا ہی تو ہے. سو اس نے بھی ڈبل شاہ کی طرح سوچا اور پھر یہاں تو انویسٹمنٹ بھی کچھ نہ تھی.

دربار شاہی میں پہنچا اور آداب بجا لانے کے بعد عرض کی عالیجاہ بندہ ناچیز حاضر ہے.

اسے خصوصی امتحان کے لیے لیجایا جائے، بادشاہ کی طرف سے جواب آیا.

رات کا اندھیرا چھا چکا ہے ہر طرف بلا کی خاموشی ہے. کتوں کا غوغا اور الوؤں کی آوازیں ہیں. تھوڑی سی سرسراہٹ بھی صور فیل کی مانند تھی.

اچانک سے دیوقامت منکر نکیر(مصنوعی) کمرے میں حاضر ہوجاتے ہیں.

منکر نکیر: تم نے یہ گدھا کس طرح حاصل کیا؟

پیسے کہاں سے لائے، کس ذریعے سے کمائے تھے؟

تم نے فلاں وقت بوجھ زیادہ ڈالا اور چارہ کم کیوں دیا؟

فلاں رات تم نے گدھے پر ظلم کیوں کیا؟ ساری رات سوال و جواب میں گزری اور کیفیت یہ تھی کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن. گویا یہ قیامت کا دن تھا.

الغرض ڈھیروں سوال اور بے چارہ سادہ بزرگ…

صبح ہوئی تو وہ میدان سے یوں غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ. سوچا ایک گدھا ہے اور اتنے سوال آدھی بادشاہی ملی تو کیا حال ہونا ہے. الأمان والحفیظ

اگر ایک نظر ملکی سیاست پر ڈالیں تو حیران و پریشان ہوجائیں گے. سال کی طرح 365 سیاسی جماعتیں ہیں اور ہر ایک ملک کو اوج ثریا پہ پہنچانے کے دعوے رکھتی ہے.؛ ور جو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ صرف باریاں تبدیل کررہے ہیں.

ملکی معیشت کہاں پہنچی ہے؟

تعلیم کا معیار کس قدر بلند ہے؟

انصاف کی فراہمی کتنی بہترین ہے؟

ملکی وقار و دفاع کتنا مضبوط ہے؟

لیکن اس بارے میں کسی کو ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے. البتہ ہر ایک سیاسی جماعت اقتدار میں ضرور رہنا چاہتی ہے. اور جواب دہی کا خوف اس گدھے والے سے بھی کم ہے. جو اتنی کم ذمے داری کو بھی بہت بڑا سمجھتا ہے اور حکمرانی کو ہلاکت جان سمجھتا ہے.

اور یہی احساس ذمے داری سے عاری رویہ ہے کہ ہر چیز تباہی کا شکار ہے. اور حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے زیادہ مضبوط معیشت کے مالک ہیں. بدقسمتی سے حکومتوں کی آنیاں جہانیاں لگی ہوئی ہیں اور اس زاویے پہ سوچنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے.

ہر الیکشن میں بلند بانگ دعوے اور وہ دعوے ہی رہتے ہیں. منصبوں کا افتتاح ہی اپنی سیاسی جدوجہد کا حاصل سمجھا جاتا ہے. ہر ایک حکومت آئی ایم ایف سے مضبوط مذاکرات کی خواہاں رہتی ہے. کبھی عرب ممالک تو کبھی چین اور آئی ایم ایف تو ان کا کامل پیر ہے.

اپنے اثاثے گروی رکھو، قومی مفادات پہ کمپرو مائز کرو اور ہر بار ڈو مور پر عمل کرتے رہو. اور وہ جب چاہیں جیسے چاہیں تو تمہاری عزت خاک میں ملادیں. نہ بھی کانوں پہ جوں رینگتی ہے اور نہ ہی رگ حمیت بھڑکتی ہے. بس لفظی توپ خانے سے فائر ہوتے ہیں اور ہر طرف خاموشی ہی خاموشی رہتی ہے.

Leave a reply