مسئلہ ہماری قومی سوچ کا ہے !! تحریر : ملک جہانگیر اقبال

آپ سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں کہ آخر پاکستان کی فلم انڈسٹری پہ زوال کیوں آیا ہوا ہے ؟ اور پھر نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ پاکستانی عوام ہندوستانی اور انگریزی فلموں کی دلدادہ ہے اسی لئے پاکستانی فلم انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے . لہذا لے دے کر ملبہ پاکستانی عوام پہ گرادیا پر اپنے گریبان میں جھانکنے سے گریزاں رہے . کہ آیا کیا زبوں حالی کیوجہ سید نور جیسے اداکاروں کا اپنی بیوی بعد از محبوبہ صائمہ کو لیکر دے مار ساڑھے چار فلمیں بنانا اور شان شاہد , معمر رانا و ہمایوں سعید کا اب تک خود کو نوجوان سمجھ کر خود ہی پروڈیوسر بن کر خود کو خود ہی ہیرو سلیکٹ کرنا تو نہیں ؟ جب اس سب سے دل نہ بھرا تو ٹی وی ڈرامہ انڈسٹری سے قریبی یار دوستوں کی کھیپ اٹھا کر انہیں فلموں میں کاسٹ کرنا شروع کردیا . انہیں سینما انڈسٹری کی اتنی سائنس بھی نہیں معلوم کہ سینما فلم دیکھنے لوگ اسلئے جاتے ہیں کہ ان کے پسندیدہ ستارے عرصہ دراز بعد کسی کردار میں نظر آرہے ہوتے ہیں . اب اک اداکار/اداکارہ جو ہر دوسرے ٹی وی ڈرامے میں نظر آرہا ہو اسے الگ سے سینما دیکھنے کیوں جایا جائے ؟ جبکہ ڈرامہ ہو یا فلم کہانی تو آپکی لگ بھگ اک ہی طرح کی ہوتی ہے.

ٹھیک یہی حشر کرکٹ کیساتھ کیا گیا . وسیم اکرم و وقار یونس جیسے عظیم کھلاڑی بھی وقت مقررہ سے تین چار سال بعد ریٹائر ہوئے ( یا جبراً ریٹائرمنٹ لی گئی) . یہ دونوں بالر اپنے جوبن کے ادوار میں 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرواتے تھے پر جب ریٹائر ہوئے اس وقت انکی رفتار 128 سے 135 تک گر چکی تھی . اگر یہ وقت مقررہ پہ ریٹائر ہوجاتے تو انکی جگہ اچھے بالر آجاتے اور یوں 2003 سے 2007 تک ہمیں ریلو کٹے بالرز کے سہارے نہ رہنا پڑتا . مصباح , یوسف , انضمام , شعیب ملک کہنے کو سب عظیم پر درحقیقت یہ سب آخری وقت میں زبردستی جگہ گھیرے بیٹھے رہے جس طرح بھارت میں مہندر سنگھ دھونی گھیرے ہوئے ہے .

اگر سیاست میں آئیں تو شیرپاؤ گروپ کے آفتاب شیرپاؤ ہوں یا موجودہ مذہبی جماعت جے یو آئی ہو . سابقہ حکومتی پارٹی مسلم لیگ ن ہو یا پیپلزپارٹی ہو . یہ سب اک خاندان کے گرد ہی طواف کرنے والی جماعتیں رہیں . یہ تمام بڑی وفاقی جماعتیں عشروں سے سیاست کر رہی ہیں اور خیر سے خود کو عوام کا حقیقی نمائندہ و محبوب ترجمان سمجھتی ہیں پر کیا ایک شخص یا خاندان کے علاوہ کسی کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اسے جماعت کی کنجیاں تھمائی جائیں ؟ حتیٰ کہ اگر کہیں ضرورت پڑی تو بچوں کے نام و نسل بدلوا دی گئی تاکہ پارٹی گھر کی کھیتی رہے .

نتیجہ کیا نکلا ؟

نتیجہ یہ نکلا کہ جب ان پہ برا وقت آتا ہے تو عوام بھی ان سے ویسی ہی نظریں پھیر لیتی ہے جیسے حکمرانی ملنے پہ یہ عوام سے نظریں پھیر کر اپنے کنبہ پہ نگاہیں مرکوز کرلیتے ہیں . اگر اس وقت عوام وفاقی حکومت سے ناراض ہیں تو وہ اس حکومت کی اپنی بری کارکردگی کیوجہ سے ہیں نا کہ زرداری و نواز شریف صاحب کے جیل جانے کیوجہ سے .

اب حالیہ واقعہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ہی دیکھ لیں . اک ایسا وقت جب ادارے پہ سیاسی ہونے کی آوازیں لگائی جارہی ہیں ایسے میں موجودہ آرمی چیف کا ملازمت میں توسیع لینا جہاں دیگر افسران کیساتھ زیادتی ہے وہیں اس پہ سیاسی ہونے کا الزام بھی حقیقت لگ رہا ہے . آخری بار 1998 میں نواز شریف نے آرمی چیف منتخب کیا تھا اس کے بعد 21 سال میں راحیل شریف اک واحد آرمی چیف تھے جنہوں نے ملازمت میں توسیع نہیں لی اسکی وجہ بھی محض سعودیہ کی بنائی فوج میں نوکری تھی وگرنہ یہ "معجزہ” اک بار دیکھنا بھی شاید نصیب نہ ہوتا .

اس توسیع کا اک بہت کمزور بہانہ بنایا جارہا کہ "چونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اسلئے سپہ سالار کی تبدیلی بیوقوفی بھرا فیصلہ ہوگا لہذا اسی لئے مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ”

جناب کاش آپ نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ دنیا میں جنگی مہارت میں سب سے عظیم سپہ سالار خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ گزرے ہیں . اس عظیم سپہ سالار نے جنگ احد سے لیکر شام کے محاذ تک 41 جنگیں لڑیں اور ناقابل شکست رہے . فارس اور روم کی عظیم سلطنتوں کو نیست و نابود کیا . انکی بہادری کیوجہ سے انہیں سیف اللہ (اللہ کی تلوار ) کا لقب دیا گیا . پر جب عوام کو یہ لگنے لگا کہ جنگوں میں فتح خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت ہوتی ہے تو عہد کے عظیم حکمران حضرت عمر فاررق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں شام کے محاذ پہ ہی سپہ سالاری سے معزول کرکے واپس مدینہ بلا لیا تاکہ عوام کو یاد رہے کہ یہ تمام فتح و نصرت کسی عمر فاروق یا خالد بن ولید کیوجہ سے نہیں بلکہ اللہ پاک کی مدد و نصرت سے ہی ممکن ہوئی ہیں .

لہذا اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ جنرل باجوہ صاحب کیوجہ سے ہی جنگی حالات سے نکلا جاسکتا تو وہ سخت دھوکے میں ہے . ہماری فوج اک پروفیشنل ادارہ ہے جہاں ہر آفیسر قابلیت کی بنیاد پہ ترقی پاتا ہوا جب جنرل کے عہدے تک پہنچتا ہے تو وہ ہر مشکل کا سامنا کرنے کو مکمل تیار ہوتا ہے لہذا کسی اک شخص پہ تکیہ کرنا یا اسے مجبوری بنانا یا باور کروانا سراسر حماقت ہے .
ٹھیک اسی طرح جو لوگ نواز شریف زرداری یا عمران و فضل الرحمن کو ہی واحد حل و نسل در نسل لیڈر تسلیم کرتے ہیں وہ اپنی اولاد و عوام کیساتھ گھناؤنا مذاق کرتے ہیں . اسی وجہ سے کئی زرخیز دماغ جو پیدائشی لیڈر ہونے کے باوجود حکمرانی کے درجے تک نہیں پہنچ پاتے کہ انکی راہ میں فرزند فضل الرحمن , نواز شریف و بھٹو حائل ہوتے ہیں

ٹھیک اسی طرح "قابض” زائد المعیاد کھلاڑیوں کیوجہ سے اصل حقدار کھلاڑی انتظار کی راہ میں بوڑھے ہو کر اپنا سنہری دور ملک کی خدمت میں گزارے بغیر ہی گمنام ہوجاتے ہیں

اور ٹھیک اسی طرح ہمایوں سعید و شان شاہد و فیصل قریشی بمع معمر رانا کی "جوانی کبھی نہ جانی” والی سوچ کیوجہ سے ہماری فلم انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے !!

مسائل تب نہیں ہوتے جب قابل لوگ عہدہ چھوڑ دیں . مسائل تب پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں جب قابل لوگوں کو یہ لگنے لگے کہ اب ان سے زیادہ قابل اور کوئی نہیں آنے والا !!

شاید ایسے ہی کسی واقعہ کو دیکھ کر امجد اسلام امجد نے کہا تھا کہ

زمانہ اس سے پہلے بھی کئی ہاتھوں سے گزرا ہے
زمانے کو تمہارے ہاتھ سے آگے بھی جانا ہے

Tagsblog

Comments are closed.