خطے کا امن اور خوشحالی ، تحریر ، خلیل احمد تھند

0
47

خطے کا امن اور خوشحالی

ہندوستان اور پاکستان کبھی اپنے جھگڑے ختم کر کے روا داری ، امن ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کر پائیں گے؟
صدیوں سے مل کر رہنے والے ایک دوسرے کے دشمن کیسے بن گئے کیا دونوں ملکوں کے اہل اختیار اور دانشور اس سوال کا جواب تلاش کرسکیں گے ؟
انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کے بعد لڑاو اور حکومت کرو کی حکمت عملی اختیار کر کے ماضی کے حکمران مسلمانوں کو ایک منصوبے کے تحت پسماندگی کی طرف دھکیل دیا رہی کسر مسلمانوں کے محدود تصور اور ویژن کے حامل مذہبی طبقے نے جدید علوم کی مخالفت کرکے نکال دی جس کے نتیجے میں ہندو اور دیگر غیر مسلم آبادی کو آگے بڑھنے کے مواقع مل گئے جبکہ مسلمان تعلیمی ، معاشی اور سیاسی میدان میں پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے اس وجہ سے ان میں احساس محرومی بڑھتا گیا عدم توازن کے اس ماحول نے مسلمانوں اور ہندووں میں دوریاں پیدا کیں جو انگریزی استعمار کی بھی ضرورت تھی
برصغیر دنیا میں موجود تمام بر اعظموں سے زیادہ وسائل رکھنے والا خطہ جسے ماضی میں بھی سونے کی چڑیا تصور کیا جاتا تھا دنیا کی ہر اہم غیر ملکی طاقت نے اس پر قابض ہونے یا اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کی آزادی و یکجہتی کی صورت میں اس خطے کے اندر سپر پاور بننے کے تمام تر لوازمات موجود تھے
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر میں مسلم دور حکمرانی میں ہندو اور سکھ ، مسلم حکمرانی میں شریک اقتدار رہے ہیں اور انہیں بطور شہری وہ تمام حقوق حاصل رہے ہیں جو مسلمانوں کو حاصل تھے مسلمانوں نے حاکم اور طاقت ور ہونے کے باوجود غیر مسلم کمیونٹی پر کبھی اسلام قبول کرنے یا اسلامی معاشرت مسلط کرنے کے لئے طاقت اور جبر کا استعمال نہیں کیا جو رواداری کی خوبصورت مثال ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ انگریزی استعمار نے برصغیر پر طویل حکمرانی کے باوجود ناانصافی کا رویہ اختیار کرتے ہوئےخطے کے باسیوں کو برطانیہ کے اصل باشندوں کے برابر حقوق اور جدید سہولیات فراہم نہیں کیں نا ہی اس لیول کا انفراسٹرکچر قائم کیا جبکہ اپنے لئے اس نے برصغیر کے سرمائے سے بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن اسے پسماندہ رکھ کر تیسری دنیا کے معیار سے دانستہ آگے نہیں بڑھنے دیا
برطانوی استعمار نے مزید چال یہ چلی کہ برصغیر کی ذہین اور معاملات کو سمجھنے والی ویژنری قیادت کو ہر طرح سے پیچھے دھکیل کر ایسی قیادتوں کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کی جو دانستہ یا نادانستہ برطانوی استعمار کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے رہیں
برطانوی استعمار تاریخ کا بھر پور ادراک رکھتا تھا اسے معلوم تھا کہ برصغیر میں کسی بھی دور میں ہندووں کی ایک مرکزی حکومت نہیں رہی وہ ہمیشہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم اور آپس میں لڑتے رہے ہیں یہاں صرف مسلمانوں کے ادوار میں ایک مرکزی حکومت قائم تھی
برطانوی استعمار کو اس بات کا پورا ادراک تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ہندوستان ہی وہ واحد مردم خیز خطہ ہے جو مستقبل میں انہیں چیلنج کر سکتا تھا دوسرے لفظوں میں انکو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں سے ہی تھا
بالفور ڈیکلئریشن جیسے تھنک ٹینک کے مشوروں پر برطانوی استعمار نے ہندوستان کی مسلم قوت کو تقسیم کرکے رکھ دیا تاکہ مستقبل میں انکو کسی مزاحمت کا سامنا نا کرنا پڑے لہذا مسلمانوں اور ہندووں میں مستقل جھگڑے کی بنیاد رکھ کر یہ سونے کی چڑیا تباہ کر دی گئی اس وقت سے آج تک اس خطہ کے عوام جنگ ، مفلسی اور معاشی پریشانیوں سے باہر نہیں نکل پائے
برطانوی راج میں یہاں کے باشندوں کا بائیو ڈیٹا ٹرائبل ہسٹری کے نام پر جمع کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے مسلمانوں ، ہندووں اور سکھوں کی جانب سے برپا کی گئی تحاریک آزادی میں خطے کے باشندوں کی بہادری اور قائدانہ صلاحیتوں کا پوری طرح اندازہ کر لیا تھا
جب سلطنت برطانیہ کے لئے برصغیر میں اپنی حکومت قائم رکھنا مشکل ہوگیا تو اس نے ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان نفرت کے عوامل پیدا کر کے انکو ہوا دینا شروع کردی تاکہ مسلمان اپنی محرومیوں اور غیر محفوظ مستقبل کے خدشات کو بنیاد بنا کر اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے برصغیر کی تقسیم کی طرف نکل جائیں
خطے کی اکثریت کی حامل ہندو لیڈر شپ صورتحال کو سمجھنے کی بجائے انگریزی استعمار کی اس سازش کا ایندھن بنتی گئی اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی حکمت عملی و روادارانہ ماحول ترتیب نا دے سکی جسکی ذمہ داری بھی اکثریت ہونے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں فوقیت رکھنے کی بنیاد پر مسلمانوں سے زیادہ بہرحال انہی پر عائد ہوتی تھی
ہندووں ، سکھوں ، بدھوں اور مسلمانوں کے مشترکہ برصغیر کی آزادی کے لئے انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے کے باوجود مسلمان مستقبل کے خدشات کا شکار تھے جس کا جواز فراہم کرنے سے ہندو لیڈرشپ کبھی بری الذمہ نہیں ہوسکتی لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ برصغیر کی تقسیم اور الگ وطن کے حصول کے لئے مسلمانوں کو مجبور کر دیا گیا تھا ایک بدقسمتی یہ رہی کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنا مستقبل طے کرنےکے لئے اتفاق برقرار نا رہ سکا جسکا دشمن قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا
انگریزی استعمار نے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے دانستہ طور پر تقسیم کے وقت پرامن تبادلہ آبادی کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا بلکہ باہمی قتل و غارت کا تماشہ دیکھا دوسری طرف تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقوں حیدرآباد ، جونا گڑھ اور بالخصوص ریاست کشمیر کو انڈیا میں شامل کر کے دونوں خطوں میں کشمکش کی بنیاد رکھ دی تھی انہیں معلوم تھا کہ اس سازش کے ذریعے خطے میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا خطے کے دونوں ممالک اپنے وسائل اور توانائیاں باہمی جنگ و جدل میں ضائع کرتے رہیں گے خطے کی آزادی اور تقسیم سے آج تک یہ حقیقیت کھل کر سامنے آچکی ہے
خطے میں بدامنی اور باہمی جنگ و جدل میں پاکستان کی نسبت انڈین لیڈرشپ کے ویژن کا فیلئیر زیادہ ہے کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فیصلے کا پاکستانی مطالبہ نیت کے درست اور حق پر ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس مطالبے کے بعد پاکستان دراصل آزاد کشمیر سے دست بردار ہوکر کشمیریوں کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے جس میں مستقل بنیادوں پر کشمیر سے محرومی کے خدشات بھی موجود ہیں اس سے زیادہ کوئی ملک کیا رواداری اختیار کرسکتا ہے؟
کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے انڈیا کی ہٹ دھرمی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انڈین لیڈر شپ نے ابھی تک حقائق کا درست ادراک نہیں کیا نا ہی مستقبل میں سمجھنے کے کوئی امکانات نظر آرہے ہیں
یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ کیا ترجیحا” انڈیا اور دوسرے درجے میں پاکستان بیرونی سازشوں اور اپنے اندرونی مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر باہمی رواداری ، امن ، ترقی اور خوشحالی سے اسی طرح دور رہیں گے ؟
یہ پہلو دونوں ملکوں کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ خطے کے موجودہ حالات کو برقرار رکھ کر فائدہ کس کا ہورہا ہے اور نقصان کس کا ؟
کیا اس پہلو پر دشمن کے مقام سے نیچے اتر کر بڑے بھائی کی حیثیت سے انڈیا اور اسکی جنتا کبھی غور کر پائیں گے ؟
( خلیل احمد تھند )

Leave a reply