مزید دیکھیں

مقبول

تبصرہ کتب ،قلب مضطر،مبصر:کنزہ محمد رفیق

” وہ جس سے بھی محبت کرتا تھا، وہ اسے چھوڑ جاتا تھا۔ ”
ماں باپ کی موت، بھائی کی دھتکار، نیلی کی بے وفائی، جان نثار کر دینے والے دوست کا دکھ، ہریرہ کا ہجر، منہ بولی بہن (تمکین) سے جدائی اور لاحاصل خوابوں نے اسے بے خود کر دیا تھا۔
آخر زندگی نے اسے کیا دان کیا؟
محض محرومیاں، کلفتیں اور اذیتیں ؟
یہ کہانی ہے جنید کی، اور اس کی حرماں نصیبی کی۔
اور یہ کہانی ہے ابوذر کی اور اس کے بلند بخت کی۔
” آخری خط، آخری ملاقات، آخری جملہ، آخری امید، اور آخری لمس اس کی زندگی کھا گیا تھا۔
جنید کے اذیتوں بھرے کردار کے لیے ساحر لدھیانوی کا یہ شعر موزوں رہے گا۔
” اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں مَیں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے”
اور مسیحا ابوذر کے کردار کا یہ شعر ترجمان ہے۔
"کسی کے زخم پہ مرہم لگا دینا
مسیحائی ہے، خدا کو پا لینا”

یہ جدا جدا دو کردار نہیں، بلکہ ایک ہی کردار کے دو رخ ہیں۔ جنید کو ابوذر بنانے اور ذہنی اور روحانی طور پر مضبوط کرنے والوں میں ڈاکٹر زبیر خان، ڈاکٹر بہروز، رومیصہ، جلال بابا اور چاچا رفیق نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ماضی کے لوگوں نے اس حساس دل انسان کو ذہنی مریض بنا دیا تھا، ہمہ وقت وہ اسی آواز کے ساتھ چیختا چلاتا۔
” ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی”
"قلب مضطر ” حنا وہاب صاحبہ کے قلم سے لکھا اصلاحی ناول ہے، اس ناول میں سماج میں بکھرے کئی موضوعات کو سمیٹ دیا گیا یے، جیسے، پیٹ پالنے کے لیے حرام کاموں میں ملوث ہونا، محبت اور اپنائیت کے اظہار میں کنجوسی کرنا اور پھر بعد میں پچھتاوا کرنا، ٹک ٹاک پر ناچ کر شہرت پانا، اور آئے روز لڑکیوں کو اچھی شکل و صورت نہ ہونے کی وجہ سے ٹھکرا دینا، لوگوں کی مسیحائی کرنا اور ہم سفر کا انتخاب کرتے وقت ظاہر سے زیادہ باطن کو مقدم رکھنا، مگر اس کا اساسی موضوع "ڈپریشن” ہے۔ جو ان تمام وجوہات کا نتیجہ یے۔ جس نے آج ہر دماغ پر راج کر رکھا ہے۔

اکیسویں صدی کا ہر دوسرا شخص نفسیاتی مرض ( ڈپریشن) میں مبتلا ہے۔ جہاں امید اور آس نہ ہو وہاں ویرانی ہوتی یے، دل پر قنوطیت کے بادل چھائے رہتے ہیں اور ہمہ وقت یاسیت کی برکھا برستی رہتی ہے جو دل کو کلی طور کھوکھلا کر کے رکھ دیتی یے۔

ہر مرض کی مانند ڈپریشن کا بھی علاج موجود ہے، جنید کے روحانیت پر مبنی سیشنز ہوتے رہے، اسے رنگوں سے کھیلنا پسند تھا، وہ رنگوں سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا۔ برابر سیشن ہوتے رہے اور وہ کشاں کشاں اپنے آپ کو سنبھالنے لگا، اس مرض سے فرار کے بعد وہ لوگوں کا مسیحا بن گیا، انہیں ڈپریشن جیسے مرض سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ، اور اس نے ایک سیشن ایسی لڑکی کا کیا، جس کو گھر آئے ہر رشتے نے ٹھکرا کر ذہنی مریض بنا دیا تھا، ابو ذر نے اسے کھلے دل سے اپنایا اور ہمیشہ کے لیے اپنا نام دے کر اسے معاشرے میں معتبر کر دیا۔
ادب میں بہت سے ادیب معاشرے میں پھیلی برائیوں کو یکجا کر دیتے ہیں، مگر اس کا سدّباب قارئین کے سامنے پیش نہیں کرتے ہیں، یہ حنا وہاب صاحبہ کا خاصہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف معاشرے میں پھیلتی بیماری کو بیاں کیا بلکہ اس کا تریاق بھی قلمبند کیا تاکہ قارئین اپنی زندگیوں کو اللّٰہ سے جوڑ کر تباہی اور زوال سے بچ سکیں۔

آج معاشرے میں مقابلہ زیادہ ہے، گھٹن زیادہ ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے دور جا رہے ہیں، اور دلوں کو عناد اور نفاق ایسی خوارک فراہم کر رہے ہیں۔
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے ثابت کیا ہے کہ ڈپریشن ایسا ذہنی مرض خوراک کی تبدیلی، دواؤں، یا جھاڑ پھونک سے صحیح نہیں ہوتا بلکہ اس کا علاج ” گفت گو” سے ہوتا یے۔
ٹاک تھراپی سے مریض اپنے اندر کی بھڑاس نکال کر ہلکا پھلکا ہو جاتا۔
پس معاشرے کو پُرامن اور لوگوں کو پُر سکون کرنے کے لیے۔۔۔۔
” بات سنتے رہو، بات کہتے رہو۔”
صفحہ نمبر 68
” سڑکوں پر لگی ہوئی لائٹس نے دن میں رات کا سماں کر رکھا تھا اسی لیے کسی نہ کسی طرح دکھائی دے رہا تھا۔”
کیا اس جملے کی ترتیب صحیح ہے؟
ریس تو رات میں شروع ہوئی تھی پھر دن میں رات کا سماں؟
کچھ سمجھ نہیں آیا۔
شاید جملہ کچھ اس طرح ہوگا :
” سڑکوں پر لگی ہوئی لائٹس نے رات میں دن کا سماں کر رکھا تھا اسی لیے کسی نہ کسی طرح دکھائی دے رہا تھا۔”
صفحہ نمبر 27
” اس کے داہنے ہاتھ پر برنولہ لگا ہوا تھا”
برنولہ یا کینولا ؟
صفحہ نمبر 37
پرواہ یوں لکھا ہوا ہے، جب کہ پروا کے املا میں آخر میں "ہ ” نہیں آتا۔ ” پروا”
صفحہ نمبر 78
بارش کی آمد سے قبل باد نسیم کو محسوس کرتے۔
بادِ نسیم صبح کی یا شام کی تازہ ہوا کو کہتے ہیں۔ جب کہ بارش سے قبل ہوا میں نمی اور زیادہ ٹھنڈک ہوتی یے تو اسے "بارانی ہوا” کہتے ہیں۔
کتاب کے صفحات اور طباعت بہتر یے جب کہ سرِ ورق بہترین ہیں۔
اصلاحی اور وقت کی ضرورت پر مبنی اس ناول کی اشاعت پر حِنا صاحبہ کو دلی مبارکباد۔
اسی طرح اپنے قلم سے معاشرے کی اصلاح کرتی رہیے، اور اپنے حصّے کے دیپ روشن کرتی جائیے ان شاءاللہ آپ کی کاوشوں سے معاشرے میں ضرور سدھار آئے گا۔
مشاہدہ کرتی رہیے، سوچتی رہیے اور لکھتی رہیے۔