بوسنیا کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم اور قتل عام کو 25 سال بیت گئے

0
47

بوسنیا کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم اور قتل عام کو 25 سال بیت گئے

باغی ٹی وی رپورٹ‌کے مطاق، آج بوسنیا میں بوسنوی مسلمانوں کے قتل عام کو ربع صدی 25 سال بیت چکے ہیں. جو جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ میں سب سے بڑا قتل عام تھا . 11 جولائی سنہ 1995 کو بوسنیائی سرب فوجیوں نے بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کر لیا۔ دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں ان کی فورسز نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔ بی بی سی کے مطابق یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کی سرزمین پر بدترین اجتماعی قتل و غارت تھی، یہ سلسلہ 10 دنوں تک جاری رہا۔ خود کار اسلحے سے لیس اقوام متحدہ کے امن فوجیوں نے پناہ گاہ قرار دیئے گئے اس علاقے میں جاری تشدد کو روکنے کیلئے کچھ نہ کیا۔اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بعد میں کہا ‘سربرینیکا کا سانحہ ہمیشہ اقوام متحدہ کی تاریخ کیلئے ایک بھیانک خواب بنا رہے گا’ یہ قتل عام بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھابوسنیا کے مسلمانوں کے بدترین قتل عام کو 25 سال بیت گئے ، گیارہ جولائی 1995 میں سرب فوجیوں نے ہرزیگووینا میں سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کیا تو آئندہ دس دنوں میں ان درندہ صفت فوجیوں نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا، دوسری عالمی جنگ کے بعد، یورپ کی سرزمین پر یہ بدترین نسل کشی تھی۔

بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی خون آلود تاریخ 90 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، 1990 کی دہائی میں جب یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ہوئے تو کئی مسلح تنازعات نے جنم لیا، بوسنیائی جنگ بھی ان تنازعات میں سے ایک تھی۔

بوسنیا ہرزیگووینا نے 1992 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کیا کچھ ہی عرصے بعد اسے امریکی اور یورپی حکومتوں نے تسلیم کر لیا، بوسنیائی سرب آبادی نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا ، جلد ہی سربیا کی حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے اس نئے ملک پر حملہ کر دیا۔

یہ حملہ گریٹر سربیا منصوبے کا حصہ تھا جس کی تکمیل کیلئے بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ابتدائی طور پر بوسنیائی سرب فورسز نے 1992 میں سربرینیکا پر قبضہ کیا، جسے بوسنیائی فوج نے جلد ہی چھڑا لیا تھا۔

اپریل 1993 میں اقوامِ متحدہ نے اس علاقے کوکسی بھی مسلح حملے سے محفوظ قرار دے دیا، مگر محاصرہ پھر بھی جاری رہا، جس کے باعث بوسنیائی مسلمان بھوک سے مرنے لگے ۔ چھ جولائی 1995 کو بوسنیا کی سرب فورسز نے سربرینیکا پر بھرپور حملہ کیا، اقوام متحدہ کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور جب نیٹو فورسز کو فضائی حملے کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے بھی کوئی مدد نہ کی یوں سربرینیکا نامی یہ علاقہ پانچ دنوں میں ہی سرب فورسز کے قبضے میں آ گیا۔

قتل عام کا ماسٹرمائنڈ جنرل ملادچ دوسرے جرنیلوں کے ساتھ شہر میں داخل ہوا تو اس کے چہرے سے سفاکیت ٹپک رہی تھی ، قبضے کے دوسرے دن ہی قتل و غارت گری کا آغاز ہو گیا۔

جب مسلمان پناہ گزین شہر چھوڑنے کے لیے بسوں پر سوار ہوئے تو ملادچ کے فوجیوں نے مردوں اور لڑکوں کو ہجوم سے الگ کیا اور انھیں دور لے جا کر گولیاں مار دیں۔

ہزاروں افراد کو پھانسی دے دی گئی اور پھر بلڈوزروں کے ذریعہ ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا اور بعض افراد کو تو زندہ ہی دفن کر دیا گیا۔اسی دوران خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ نسل کشی کے 25 سال بعد آج بھی متاثرین کی لاشیں اور اجتماعی قبریں ملتی ہیں اور قتل و غارت کے بہیمانہ منصوبے کی دردناک کہانی سناتی ہیں.
بوسنیائی جنگ میں ظالم سربی فوج کے خلاف جب مظلوم بوسنوی مسلمانوں نے علم جہاد بلند کیا تو تب ظلم کے یہ بادل چھٹنے لگے .اس وقت پاکستان کی جانب سے بوسنوی مسلمانوں‌ کی مدد کی گئ اور ان کو جب ٹینک شکن میزائل دیے گئے تو جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، تب سربی فوجی درندوں‌ کے لاشے گرنے لگے بھاری نقصان ہونے پر سربیا مزاکرات کی ٹیبل پر آنے پر مجبور ہوا . وہ ٹینک شکن میزائل یہ ہیں.

اس مناسبت سے ٹویٹر پر #Srebrenica25 ٹرینڈ بھی چلا ہے جس میں دنیا کے حکمرانوں نے اس قتل عام پر مذمتی بیان جاری کیے ہیں. جن میں بعض مسلم حکمران بھی شامل ہیں . لیکن پاکستان جو کہ سب سے اہم مسلم ملک ہے اور دنیا کا پہلا ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے اس ملک کے حکمرانوں کو علم ہی نہیں ہے اس دن یہ سانحہ بھی رونما ہوا تھا . ایسے موقع پر مسلمانوں کے حق میں چند لمحوں‌کا بیان دینا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے . جبکہ امت کے مسائل کو حل کرنے کی تو دور کی بات ہے.

Leave a reply