آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی
سائفر کیس کے دوبارہ جیل ٹرائل کا فیصلہ ،عوام اور میڈیا کو جیل سماعت میں موجود رہنے کی اجازت ہو گی، جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے محفوظ فیصلہ سنا دیا،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جیل حکام اور سیکیورٹی اداروں نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا۔آئندہ سماعت جیل میں ہی ہوگی،اوپن کورٹ ہوگی۔میڈیا اور پبلک کو بھی شرکت کی اجازت ہوگی۔پہلے کی طرح پانچ پانچ فیملی ممبران کو بھی اجازت ہوگی۔آئندہ سماعت جمعہ کو ہوگی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت،سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا گیا،خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا، حکم نامہ میں کہا گیا کہ آج کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی غیر حاضر رہے،23 نومبر کو سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو دونوں ملزمان کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا،سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی جانب سے عدالت میں سکیورٹی رپورٹ پیش کی گئی،سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی رپورٹ اسلام آباد پولیس، آئی بی اور اسپیشل برانچ کی معلومات کی بنیاد پر تھی،رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے، عدالت کی جانب سے سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی رپورٹ کا بغور جائزہ لیا گیا، رپورٹ سے ظاہر ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے،عدالت سابق وزیراعظم کی جان کو لاحق خطرات کی تشخیص کو ہلکا نہیں لے سکتی، ماضی میں چیئرمین پی ٹی آئی کے کارکنان کا جوڈیشل کمپلیس پر دھاوا بولنے کا واقعہ بھی رونما ہو چکا، جوڈیشل کمپلیس میں سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے محفوظ ہے نہ ہی دیگر افراد کیلئے، ان وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت سائفر کیس کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں کرنے کا حکم دیتی ہے،چونکہ چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہورہا ہے، شاہ محمود قریشی کا بھی اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا، چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ایک اوپن ٹرائل ہوگا،ملزمان کے وکلا اور خاندان کے پانچ پانچ افراد کو ٹرائل کی کارروائی دیکھنے کی اجازت ہوگی، عام عوام اور سماعت سننے کے خواہشمد افراد کو ٹرائل کی کارروائی میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی، عام عوام کو جیل رولز اور مینول اور کمرہ عدالت میں گنجائش کی بنیاد پر ٹرائل میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی،
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابولحسنات ذوالقرنین نے سماعت کی،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء اور ایف آئی اے پراسکیوشن ٹیم عدالت میں پیش ہوئی،چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی عدالت میں موجود تھی، سلمان صفدرایڈوکیٹ نے کہا کہ آج دو مختلف معاملات ہیں، سائفر کیس کا ٹرائل آج سماعت کے لیے مقرر ہے، ہم امید کررہے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کیا جائے گا،ابھی تک چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت پیش نہیں کیا گیا ، یہ ریکارڈ کیس ہے اتنی رفتار سے کبھی کیس نہیں چلا،
عدالت نے اسٹاف کو کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی،جیل حکام نے عدالت میں رپورٹ پیش کردی ،جج ابولحسنات ذوالقرنین نے رپورٹ کا جائزہ لیا اور کہا کہ جیل حکام کا کہنا ہے عمران خان کو پیش نہیں کرسکتے، جیل حکام نے عدالت میں کہا کہ اسلام آباد پولیس کو اضافی سیکورٹی کے لیے خط لکھا، بتایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سنجیدہ نوعیت کے سیکورٹی خدشات ہیں ، اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی جیل رپورٹ کیساتھ منسلک ہے
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا جیل حکام کی زمہ داری ہے ، جیل حکام ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا نظر انداز نہیں کر سکتے ، 23 نومبر کو عدالت نے چیئرمین پی ٹی اور شاہ محمود قریشی کو طلب کیا تھا، عدالت نے حکم دیا تھا چیئرمین پی ٹی آئی کو آئندہ سماعت پر پیش کیا جائے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلہ سے معلوم ہوگا کہ استغاثہ کیس کہاں تک متاثر ہوگا ،ہم کہتے رہے ان حالات میں فرد جرم عائد نہ کریں ،ہمیں کہا جاتا تھا کہ حکم امتناع ہے تو دکھا دیں، ہم کہتے رہے ابھی آگے نہ بڑھیں طے ہو لینے دیں کہ یہ کیس کیسے چلنا ہے، کبھی کوئی کیس اتنی جلدی میں چلا ؟ بے نظیر بھٹو کیس کتنے سال چلا؟ اس کیس کو ہم پانچ ہفتوں میں مکمل کرنے کے لیے نکلے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کرنا جیل حکام کی ذمہ داری ہے،اس خط و کتابت کی کوئی بنیاد نہیں ہے، ہمیں صبح سے بلکہ کل سے حالات بتا رہے تھے کہ یہ پیش نہیں کریں گے ،یہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ، ہم جان پر کھیل کر عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں،کیا چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں محفوظ نہیں یا راستے میں کوئی خطرہ ہے تو بتا دیں ؟جوڈیشل کمپلیکس کو مکمل طور پر بند کرکے بھی لایا جاسکتا ہے،اس عدالت میں کس سے خطرہ ہے؟ یہاں فیملی سے خطرہ ہے یا قانون کی پاسداری کرنے والے وکلاء سے خطرہ ہے؟ آپ کی بات نہیں مان رہے یا اسلام آباد ہائیکورٹ کی بات نہیں مان رہے تو کیا ہم سپریم کورٹ جائیں ؟آپ کا حکم حتمی ہوتا ہے پھر آج کیا ہوا ہے؟ اگر سکیورٹی تھریٹ ہیں تو اس کیس پر سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی جائے جیل میں کیس نہیں چل سکتا تو یہاں بھی یہ چلانا نہیں چاہ رہے تو ملزمان کو ضمانت دے دی جائے ، یہ ٹرائل کہا چل سکتا یہ بتا دیں،یہ ٹرائل یہاں پر نہیں چل سکتا اور نہ جیل میں چل سکتا ہے تو پھر کہا چل سکتا ہے
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل کا آغاز کر دیا ،علی بخاری نے کہا کہ جیل سپریڈنٹ کا لیٹر ایف آئی اے پراسیکوٹر شاہ خاور نے خود پڑھا ہے،شاہ محمود قریشی کو کیوں ابھی تک پیش نہیں کیا گیا ؟,اب تو کوئی چارج فریم نہیں ہوا اور نہ کوئی نقل تقسیم ہوئی ہے پھر اندر کیوں رکھا ہوا ہے،آپکا اپنا آرڈر تھا جیل سپرنٹینڈنٹ کو کہیں میرے آرڈر پر عملدرآمد کروائیں نہیں تو نتائج بھگتیں،وکیل علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ یہ اوپن ٹرائل ہے ملزم کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ملزم کو عدالت میں پیش کرنا قانونی زمہ داری ہے، ملزمان کی پروڈکشن کروانا عدالت کی ذمہ داری ہے، اگر عدالتی احکامات نہیں مانے جاتے تو سرکاری ملازم کو جیل میں بھیجنے کا اختیار آپ کے پاس ہے، شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہوئے عدالت نے کہا کہ عدالت مناسب آرڈر کرے گی، کیا عدالت نے ملزمان کو طلب کیا تھا ؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ نے ملزمان کو طلب کیا تھا ،جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جتھے مرضی نوٹیفکیشن لائیں کوئی فرق نہیں پڑتا ،عوام کو رسائی ہونی چاہیے ، میڈیا کو عدالت تک رسائی ہونی چاہیے ، میں خواہش کا لفظ استعمال کررہا ہوں کہ جو بھی کیس سننے کی خواہش رکھتا ہو کیا آپ اسے اجازت دے سکتے ہیں،
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آپ کی طرف فیصلے کرنے والا جیل سپرٹنڈنٹ کون ہے، جیل سپرٹنڈنٹ کون ہوتا ہے فیصلہ کرنے والا، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے جیل میں ٹرائل کیا جاسکتا ہے، عدالت میں جیل حکام نے دستاویزی شواہد کیساتھ بتایا کہ سیکورٹی خدشات کی بنیاد پر پیش نہیں کرسکتے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس عدالت کی کارروائی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ، عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ جیل میں ٹرائل ہوگا یہاں پر,آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ جیل ٹرائل کی صورت میں کتنے لوگ عدالت میں آسکتے ہیں، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ عدالت کو فرق نہیں پڑتا کہاں ٹرائل ہوگا،عدالت چاہتی ہے کہ جو ٹرائل کو دیکھنا چاہے اس کے لیے کیا کریں گے، سیکشن 352 کا اطلاق کرنا ہے اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے،
وکیل علی بخاری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی حد تک کوئی خط و کتابت نہیں انکو پیش کیوں نہیں کیا گیا ، سلمان صفدر ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہاں کون سا ایسا واقعہ ہوا جس سے کہیں کوئی تھریٹ ہے، روزانہ اڈیالہ جیل سے دہشتگردوں کو لایا جاتا ہے،اب یا تو پیش کیا جائے یا زمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے ،اسکندر ذوالقرنین سلیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے پر متعلقہ آئی جی کو طلب کیا جانا چاہیے ، ایف آئی اے پراسکیوٹر کا کام نہیں ہے کہ وضاحتیں دیں ، ایف آئی اے پراسکیوٹر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جیل سپرٹنڈنٹ کے درمیان خط و کتابت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ،
آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت ، سائفر کیس ،چیرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش نہ کرنے جیل حکام کی رپورٹ ،عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ،جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ اس حوالے سے آرڈر پاس کروں گا ،
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل کالعدم قرار
سائفر کیس،لگی دفعات میں سزا،عمر قید،سزائے موت ہے،ضمانت کیس کا فیصلہ
سائفر کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم امتناع،اڈیالہ جیل میں سماعت ملتوی
سائفر کیس، شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد
اسلام آباد ہائیکورٹ کا سائفر کیس کی سماعت روکنے کا حکم
سائفر معاملہ؛ اعظم خان کے بعد فارن سیکرٹری بھی عمران خان کیخلاف گواہ بن گئے
سائفر کیس، عمران خان کو بیٹوں سے بات کروانے کی اجازت