اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ خارج کرنے کا حکم

0
43

کیا عمران خان کی گفتگو زیرالتوا تفتیش پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں؟ عدالت

اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی اخراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ہوئی

کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی اور عمران خان کے وکیل سلمان صفدرعدالت میں پیش ہوئے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں جے آئی ٹی نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے آئی ٹی کا فیصلہ ہے کہ عمران خان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ بنتا ہے،عمران خان کے وکیل کی طرف سے عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں عمران خان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ نہیں بنتا

عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر اور ٹرانسکرپٹ کہاں ہے زرا پڑھیں ،یراسیکیوٹر نے عمران خان کی تقریر کا متنازعہ حصہ پڑھ کر سنایا ،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ مقدمہ عالمی دنیا میں پاکستان کی کیا تصویر پیش کریگا، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کو چھوڑ دیں، دلائل میں متعلقہ رہیں،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ آئی جی اور خاتون جج کے خلاف لیگل ایکشن لیں گے عمران خان کی تقریر میں کہیں دھمکی کا پہلو نہیں تھا ,اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پراسیکیوٹر کو کہا کہ دھمکی آمیز جملے کونسے ہیں وہ پڑھیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان نے کہا شرم کرو آئی جی اور ڈی آئی جی، ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے، کیس کرینگے،عمران خان نے کہا مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہو جاؤ آپ کے اوپر بھی ایکشن لیں گے،جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اتنا ہی پورشن ہے؟ کیا صرف یہی جملے ہیں؟وکیل عمران خان نے کہا کہ یہ مقدمہ بنا کر دہشتگردی کی دفعات کا مذاق بنایا گیا ہے،عمران خان کے الفاظ کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا لیگل ایکشن لینا سب کا حق ہےعمران خان کی اس گفتگو پر کوئی مقدمہ بنتا ہی نہیں،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا عمران خان کی گفتگو زیرالتوا تفتیش پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دہشتگردی کی تعریف واضح ہوچکی ہے ،دفعات حقیقی دہشت گردوں کے لیے ہے ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا ہک عمران خان پر جو الزامات ہیں وہ بتا دیں، وکیل نے کہا کہ اخراج مقدمہ کی درخواست دائر ہونے تک مقدمہ میں دہشتگردی کے علاوہ مزید دفعات شامل نہیں تھیں،عمران خان پر188،189 ،503اور506 کی دفعات لگائی گئی ہیں ،پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ سے سیکشن 186 نکال دی گئی ہے، مقدمہ میں پولیس ملازم کو زخمی کرنے کی دھمکی کی دفعہ 189 شامل کر دی گئی ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کی تقریر سے کہاں کسی کو نقصان پہنچا ،کہاں بدامنی ہوئی یا خوف پھیلا ان کیسز نے تو عمران خان ہی مشکلات میں مبتلا ہوئے ہیں،میں تمہیں دیکھ لوں گا کوئی جرم نہیں جب تک اس میں جارحیت شامل نہ ہو، عمران خان نے کہا پولیس افسران پر کیس کرینگے اور خاتون جج کے خلاف لیگل ایکشن کا کہا،مقدمہ میں لکھا گیا کہ عمران خان کے بیان سے عوام میں خوف و ہراس پھیلا، عمران خان نے پولیس کو دو جواب جمع کرائے وہ مطمئن نہیں ہوئے تو خود پیش ہو گئے،پولیس نے عمران خان سے ایک ہی سوال پوچھا کہ آپکے بیان سے خاتون جج اور آئی جی دہشت ذدہ ہوئے،عمران خان نے کہا کہ میرا کسی کو دہشت ذدہ کرنے کا کوئی مقصد نہیں تھا،مقدمہ میں لکھا گیا کہ عمران خان کے بیان سے جج اور پولیس افسران کو دھمکایا گیا،ان دفعات میں سے کوئی ایک بھی اس مقدمہ میں نہیں بنتی پولیس کہہ رہی ہے عمران خان کے خلاف چالان تیار ہو چکا ہے،اس عدالت نے پولیس کو چالان جمع کرانے سے روک رکھا ہے، عمران خان نے جو کہا انہیں نہیں کہنا چاہیے تھا، وہ افسوس کا اظہار کر چکے، پراسیکیوشن کا کنڈکٹ اس عدالت کے سامنے ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دہشتگردی کی دفعات کا غلط استعمال کافی حد تک رک گیا تھا،پراسیکیوشن اب بھی عمران خان کیخلاف دہشتگردی کا مقدمہ برقرار رکھنے پر بضد ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان پر یہ دفعات نہیں لگتیں تو آئی جی اور ڈی آئی جی کے پاس پبلک میں ایسے الفاظ کہنے پر کیا فورم ہے؟ جو 2014 میں ہوا وہ کیا تھا؟ کیا اس پرمقدمہ بنتا تھا؟ ایک ایس ایس پی کو سیاسی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے مارا پیٹا گیا تھا، کیا پولیس افسر پر تشدد کرنے والوں پر مقدمہ بنتا تھا؟ وکیل عمران خان نے کہا کہ جی، تشدد پر تو مقدمہ بنتا تھا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی زیرالتوا مقدمہ میں مداخلت کرتا ہے تو توہین عدالت بنتی ہے آئی جی اور ڈی آئی جی کے پاس کونسا فورم موجود ہے؟ اس طرح تو پھر آپ ایک فلڈ گیٹ کھول دینگے،ایسا کون سا سیاست دان ہے جو کہیں پر ایسی چیز نہ کہتا ہو، پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ اس طرح کی بات اور کسی نے نہیں کہی،عدالت نے کہا کہ اس بات کو چھوڑ دیں، اس میں نہ جائیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ شخص سابق وزیراعظم ہے، مستقبل کا وزیراعظم بھی ہو سکتا ہے،عمران خان کی جماعت کے پاس مضبوط سوشل میڈیا اور فالوورز موجود ہیں، عمران خان کے پڑھے لکھے اور اَن پڑھ فالوورز موجود ہیں، عمران خان نے تقریر میں کہا کہ ہم تمہارے اوپر ایکشن لیں گے، عمران خان نے نہیں کہا کہ ہم لیگل ایکشن لیں گے، عوام خوف زدہ ہوئے کہ ایک سابق وزیراعظم نے ایسے الفاظ کہہ رہا ہے، عمران خان نے جو تقریر کی وہ ڈیزائن کے تحت تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا عمران خان کی پوری تقریر میں زخمی کرنے کی دھمکی موجود ہے؟ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ زخمی کرنا صرف جسمانی طور پر زخمی کرنا نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آئی جی یا ڈی آئی جی نے اندراج مقدمہ کیلئے کوئی درخواست دی؟ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ مجسٹریٹ نے اس مقدمہ کے اندراج کیلئے درخواست دی،عدالت نے کہا کہ آپ کو تفتیش میں ایک تقریر کے علاوہ کچھ بھی نہیں مل سکا، پھر ڈیزائن تو موجود نہیں رہا،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی دفعات کا غلط استعمال تو ہوتا رہا ہے،فیصل رضا عابدی کے خلاف دہشتگردی کے دو مقدمات درج ہوئے اور وہ بعد میں بری ہو گئے، پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر ایس ایچ او کسی کو کہے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا تو اس کے سنجیدہ اثرات اور نتائج ہو سکتے ہیں،بالکل اسی طرح سابق وزیر اعظم کے اس اشتعال انگیز بیان کے بھی اثرات ہیں،

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ خارج کرنے کا حکم دے دیا عمران خان کے خلاف مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کا کیس سیشن کورٹ منتقل کرنے کا حکم دے دیا ،عدالت نے کہا کہ بغیر اجازت ریلی نکالنے، پولیس احکامات کی خلاف ورزی کا مقدمہ ابھی چلے گا،

واضح رہے کہ عمران خان نے اپنے خلاف درج دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرانے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا،اپنی درخواست میں عمران خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ میرے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بے بنیاد ہے، اس مقدمے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خارج کردیا جائے۔یاد رہے کہ چند روز قبل عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں ایک تقریر کی گئی تھی جس پر عمران خان پر اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران کو دھمکیاں دینے کے الزام میں مارگلہ تھانے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

@MumtaazAwan

عدلیہ کو دھمکیاں، ممنوعہ فنڈنگ، توشہ خانہ،عمران خان نااہلی سے بچ پائیں گے؟

عمران خان نے ووٹ مانگنے کیلئے ایک صاحب کو بھیجا تھا،مرزا مسرور کی ویڈیو پر تحریک انصاف خاموش

نعرے ریاست مدینہ کےاورغلامی امریکہ کی واہ شہبازگل باجوہ

یہ ہے نیا پاکستان، سابق وزراء اعظم پر توشہ خانہ کیس، عمران خان کا تحائف کی تفصیلات دینے سے انکار

سپریم کورٹ کا مارگلہ ہلز میں مونال ریسٹورنٹ کے حوالہ سے بڑا حکم

مارگلہ ہلز ، درختوں کی غیرقانونی کٹائی ،وزارت موسمیاتی تبدیلی کا بھی ایکشن

Leave a reply