صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ منظور کر لیا

جسٹس مظاہر نقوی نے گزشتہ روز استعفیٰ دیا تھا جو اب صدر مملکت نے منظور کر لیا ہے،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر تھی اور ان کے خلاف آج 11 جنوری کو دن 1 بجے سماعت ہونا تھی اب استعفی کے بعد کاروائی نہیں ہو سکے گی۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا،سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر سماعت ہے جس سلسلے میں انہوں نے کونسل کو اپنا تفصیلی جواب جمع کرایا تھا،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت عارف علوی کو بھجوایا جس میں کہا گیا ہےکہ میرے لیے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں، میں نے لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں فرائض انجام دیئے،

غلطی سے غلط تاریخ لکھ دی، استعفیٰ منظور کیا جائے، جسٹس مظاہر نقوی کا صدر مملکت کو مراسلہ
سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفے پر غلط تاریخ درج ہونے پر ان کے سیکرٹری نے صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مراسلہ بھیج دیا جس میں کہا گیا کہ تاریخ غلطی سے غلط لکھی گئی، استعفیٰ منظور کیا جائے،جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کے استعفے پر تاریخ کی جگہ 2024 کی جگہ 10 جنوری 2023 لکھا تھا،تا ہم اب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے سیکرٹری نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مراسلہ روانہ کیا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ تاریخ غلطی سے 2023 لکھی گئی، استعفے پر غیردانستہ طورپر 2024 کے بجائے 2023 لکھا گیا،تاریخ 2024 تصور کرتے ہوئے استعفیٰ منظور کیا جائے

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفی میں بڑی غلطی سامنے آگئی،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفی پر سال 2023 لکھا ہوا ہے،استعفیٰ پر تاریخ دس جنوری 2023 لکھی ہوئی ہے جبکہ تاریخ 10 جنوری 2024 لکھی ہونی چاہئے تھے،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے سٹاف کا ٹائپ کردہ استعفی سائن کیا،بطور جج انہوں نے اپنے استعفی کا متن بھی نہ پڑھا بلکہ ویسے ہی دستخط کر دیئے،استعفیٰ کی کاپی صدر مملکت اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھجوائی گئی ہے،استعفی پر تاریخ درست نہیں ہے، جہاں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے دستخط ہیں وہاں بھی تاریخ کا اندارج نہیں ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ اعتراف جرم قوم کی جیت،سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، میاں داؤد ایڈوکیٹ
دوسری جانب سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والے وکیل میاں داؤد ایڈوکیٹ کا ردعمل سامنے آیاہے، میاں داؤد ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ کرپٹ ترین جج جسٹس مظاہر نقوی کا استعفی پوری قوم اور پاکستان کے وکلاء کی جیت ہے تاہم ابھی منزل باقی ہے۔ جسٹس نقوی کا استعفی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائیگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کرپٹ جج جب رنگ ہاتھوں پکڑا جائے تو استعفی دے کر گھر چلاجائے اور عوام کے پیسوں پر پنشن لیکر عیاشی کرتا رہے،پہلی بار ہوا کہ سپریم کورٹ کے جج کا احتساب ہوا، ثبوتوں کی بنیاد پر کاروائی آگے بڑھی، میری شکایت کو متنازعہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ٹھوس شواہد تھے، جسٹس مظاہر نقوی کے پاس دفاع کے لئے کچھ نہیں تھا، مظاہر نقوی کا استعفیٰ ان کا اعتراف جرم ہے،ہم اس استعفیٰ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے،انکی پنشن بند ہونی چاہئے، ریفرنسز چلنے چاہئے لوٹی ہوئی دولت برآمد ہونی چاہئے.

مسلم لیگ ن کے رہنما، سابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ "استعفیٰ کی منظوری کافی نہیں ہو گی۔ اثاثوں کی چھان بین سیاستدان کیطرح جج صاحب اور انکی آل اولاد سب کی ہونے چاہئیے ۔ ترازو پکڑنے والے ہاتھ کا حساب آخرت میں تو اللہ کی صوابدید ہے۔ مگر دنیا میں نہیں کرینگے تو ہم سب برابر کے گناہ گار ہونگے”

قبل ازیں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کرا دیا ،جسٹس مظاہر نقوی نے خود پر عائد الزامات کی تردید کر دی، جواب میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کیخلاف معلومات لے سکتی ہے کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں، رولز کے مطابق کونسل کو معلومات فراہم کرنے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا،

میرے بیٹوں کو اگر زاہد رفیق نے پلاٹ دیا ہے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں،جسٹس مظاہر نقوی
جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی پر بھی اعتراض کر دیا اور کہا کہ کونسل میں ایک شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل بھی ہے،اٹارنی جنرل شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ہیں،بار کونسلز کی شکایات سیاسی اور پی ڈی ایم حکومت کی ایماء پر دائر کی گئی ہیں، پاکستان بار کی 21فروری کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی،شہباز شریف سے ملاقات کے روز ہی پاکستان بار کونسل نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی،شوکاز کا جواب جمع کرانے سے پہلے ہی گواہان کو طلب کرنے کا حکم خلاف قانون ہے، یہ الزام سراسر غلط ہے کہ مجھ سے کوئی بھی شخص باآسانی رجوع کر سکتا ہے، غلام محمود ڈوگر کیس خود اپنے سامنے مقرر کر ہی نہیں سکتا تھا یہ انتظامی معاملہ ہے، غلام محمود ڈوگر کیس میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا تھا، لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کردہ ہے، ایس ٹی جونز پارک میں واقع گھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا، اختیارات کا ناجائز استعمال کیا نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا،گوجرانوالہ میں خریدا گیا پلاٹ جج بننے سے پہلے کا ہے اور اثاثوں میں ظاہر ہے، زاہد رفیق نامی شخص کو کوئی ریلیف دیا نہ ہی انکے بزنس سے کوئی تعلق ہے،میرے بیٹوں کو اگر زاہد رفیق نے پلاٹ دیا ہے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں،دونوں بیٹے وکیل اور 2017 سے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں،جسٹس فائز عیسی کیس میں طے شدہ اصول ہے کہ بچوں کے معاملے پر جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کر سکتی، پارک روڈ اسلام آباد کے پلاٹ کی ادائیگی اپنے سیلری اکائونٹ سے کی تھی،الائیڈ پلازہ گجرا نوالہ سے کسی صورت کوئی تعلق نہیں ہے،جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایات خارج اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر دی

جسٹس مظاہر نقوی پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور سپریم کورٹ جج اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی آمدن سے زیادہ مہنگی لاہور میں جائیدادیں خریدی ہیں لہذا سپریم جوڈیشل کونسل اس کو فروخت کرے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف کارروائی کرے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ملک کی بار کونسلز نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی آڈیو لیک کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف بلوچستان بار کونسل سمیت دیگر نے ریفرنسز دائر کر رکھے ہیں۔

ریفرنس میں معزز جج کے عدالتی عہدے کے ناجائز استعمال کی بابت بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں جبکہ معزز جج کے کاروباری، بااثر شخصیات کے ساتھ تعلقات بابت بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ریفرنس میں معزز جج کےعمران خان اور پرویز الہیٰ وغیرہ کے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ خفیہ قریبی تعلقات کی بابت بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل پر اٹھائے اعتراضات

ہائیکورٹ نے کیس نمٹا کرتعصب کا مظاہرہ کیا،عمران خان کی سپریم کورٹ میں درخواست

جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ دونوں شوکاز نوٹس چیلنج کردیئے

Shares: