سپریم کورٹ لاہور رجسٹری ،عدالتی نظرثانی ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دائر درخواست میں صدر مملکت اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے ،درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عدالتی نظرثانی ایکٹ آئین سے متصادم ہے ،آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل ہرشہری کا حق ہے ،عدالتیں قانون،ثبوتوں اور حقائق کومدنظر رکھ کر فیصلے سناتیں ہیں عدالتی فیصلوں پر نظر ثانی کاقانون عدلیہ کودباو میں لانے کا ہتھیار ہے عدالت عدالتی نظرثانی ایکٹ کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دے ،عدالت نظرثانی ایکٹ کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے
واضح رہے کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ 2023 کی کاپی اور نوٹیفکیشن سپریم کورٹ جمع کروا دیا ، آرٹیکل 184 کے تحت مقدمات کی نظرثانی درخواستوں میں سپریم کورٹ اپیل کی طرز پر سماعت کرے گی، ایکٹ کا دائر کار اس قانون کے بننے سے پہلے کے فیصلوں پر بھی ہو گا، نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، لارجر بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز سے زیادہ ہوگی، 184(3)کے فیصلے کے خلاف 60روز میں اپیل دائر کی جاسکے گی، نظر ثانی میں اپنی مرضی کا وکیل مقرر کیا جا سکے گا،ایکٹ کا دائرہ کار سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کے فیصلے اور رولز پر بھی ہو گا،ایکٹ نافذ ہونے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی ایکٹ سے فائدہ اٹھا سکیں گے
سردار تنویر الیاس کی نااہلی ، غفلت ، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی
تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے
عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا
آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا