بگٹی قبیلے سے سرداری نظام کا خاتمہ آغا نیاز مگسی

0
126

بگٹی قبیلے کا شمار بلوچ قوم کے اہم ترین ، طاقتور اور جنگجو قباٸل میں ہوتا ہے . اس قبیلے کا آخری سردار نواب محمد اکبر خان بگٹی گزرے ہیں . ان کی وفات 26 اگست 2006 میں ضلع کوہلو کے ایک پہاڑی غار میں پہاڑی تودہ گرنے کے نتیجے میں ہوٸی . وہ حکومت سے اختلافات کے باعث اپنا آباٸی شہر اور بگٹی قبیلے کے مرکزی صدر مقام ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر روپوشی کی زندگی گزارنے یا مزاحمت کے اردادے سے یہاں مقیم ہو گٸے تھے . ان کی ہلاکت کے اس سانحے کے اصل حقاٸق آج تک سامنے نہیں آ سکے ہیں .

بگٹی قبیلہ ایک طویل عرصے تک نواب اکبر بگٹی کو نہ صرف اپنا متفقہ سردار تسلیم کرتا رہا بلکہ ان کو کسی بھی پیر و مرشد سے زیادہ عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھتا تھا. بہت سے سادہ لوح افراد کسی کو اپنی بات پر باور کرانے کی غرض سے نواب بگٹی کے سر کی قسم یا ان کی داڑھی کی قسم کھاتے تھے . لیکن سنہ 2000 کے بعد بگٹی قبیلے میں اندرونی اختلافات شدید تر ہوتے گٸے اور کچھ حلقوں میں اپنے سردار کے خلاف بغاوت کے آثار پیدا ہونا لگے .

24 اگست 2006 کو ڈیرہ بگٹی میں بگٹی قبیلے کا ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا جس میں خود نواب بگٹی کے بھتیجے رکن صوباٸی اسمبلی میر جمل خان بگٹی سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی . اس جرگہ میں متفقہ طور پر نواب اکبر بگٹی کو بگٹی قبیلے کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا تھا اور بگٹی قبیلے سے مستقل طور پر سرداری نظام بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا. اس جرگے میں حکومت اور مری قبیلے سے مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ نواب بگٹی ضلع کوہلو میں روپوش ہے وہ ان کو گرفتار کرا کے ہمارے حوالے کرانے میں مدد اور تعاون کریں تا کہ ہم اپنے قبیلے کی صدیوں پرانی روایات کے تحت اکبر بگٹی کٕے متعلق ان کے جراٸم کے مطابق سزا کا فیصلہ کر سکیں .

میں بگٹی قبیلے کے اس تاریخی جرگے میں بطور مبصر شریک تھا. جب جرگہ ختم ہوا تو میں نواب اکبر بگٹی کے بھتیجے اور ایم پی اے حاجی میر جمل خان بگٹی کے پاس گیا اور ان سے اس تاریخی قباٸلی فیصلے کے پس منظر کے بارے میں کچھ سوالات کیٸے مگر انہوں نے مجھے ہاتھ جوڑ کر جواب دینے سے معذرت کی اور میرے رخصت ہونے پر انہوں نے اپنے کمرے کو اندر سے کنڈی لگا کر بند کر دیا. مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آٸی کہ اس میں کیا راز تھا . ٹھیک 2 روز بعد 26 اگست 2006 کو ضلع کوہلو کے پہاڑوں میں نواب اکبر بگٹی کی وفات کا سانحہ پیش آیا . ایک دلچسپ بات یہ کہ نواب اکبر بگٹی کی وفات کے ایک سال بعد بگٹی قبیلے کے کچھ معتبرین نے اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر اکبر بگٹی کے پوتے میر عالی بگٹی کو بگٹی قبیلے کا نواب منتخب کر لیا . اس تقریب میں دیگر کسی بھی بلوچ قبیلے کے نواب یا سردار نے شرکت نہیں کی تھی . بگٹی قبیلے کی اکثریت نےبھی ان کو سردار تسلیم کرنے سے انکار کر دیا . میر عالی کے بطور نواب دستار بندی کے بعد بگٹی قبیلہ 3 واضح دھڑوں میں تقسیم ہو گیا . ایک دھڑا عالی کی حمایت میں دوسرا دھڑا نوابزادہ براہمدغ بگٹی کی حمایت میں آ گیا اور تیسرے دھڑے نے دونوں کی حمایت نہیں کی اور سرداری نظام سے لاتعلق ہو گٸے . نواب میر عالی بگٹی کی دستار بندی سوٸی میں ہوٸی تھی وہ وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد خود کو شاید کمزور یا بگٹی قبیلے کے اندرونی اختلافات کے باعث خود کو غیر محفوظ کرنے لگے جس کی وجہ سے وہ سانگھڑ سندھ چلے گٸے کیوں کہ وہاں بھی ان کی اراضیات اور بستی آباد یے. اس کے بعد آج تک ڈیرہ بگٹی نہیں آ سکے لیکن نواب عالی کے حامی افراد وقتاً فوقتاً حکومت سے اپیل کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے نواب کو ڈیرہ بگٹی لایا جاٸے . ان کے اس مطالبے اور اپیل سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ اس اپیل کے پیچھے خود عالی بگٹی کی منشا شامل ہے اور یہ اپیل اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ میر عالی خان بگٹی حکومت کی مدد کے بغیر ڈیرہ بگٹی کبھی نہیں آ سکتے . جبکہ نواب اکبر بگٹی کے ایک اور پوتے نوابزادہ براہمدغ بگٹی کچھ عرصہ ریاست کے خلاف مزاحمتی تحریک چلاتے رہے اس کے بعد افغانستان فرار ہو گٸے پھر وہاں سے وہ سوٸیٹزر لینڈ چلے گٸے اور وہاں پناہ حاصل کی .

Leave a reply