بنیادی صحت کی سہولیات کا فقدان تحریر: منصور احمد قریشی

پاکستان کی آزادی کے وقت ، پاکستان کو صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کا نظام وراثت میں ملا جو برطانوی عہد کا عظیم ورثہ تھا ۔ یہ نظام صحتِ عامہ کی خدمات اور کچھ علاج معالجہ کی شکل میں تھا ۔ پاکستان میں صحت کی پالیسیاں بنانے اور منصوبہ بندی کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ صوبائی حکومتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں پبلک ہیلتھ سکولوں اور ٹیکنیشین ٹریننگ اداروں کو متعارف کروا کر میڈیکل پروفیشنلز کو تربیت دے کر صحت کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کرنے کی بجاۓ میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ترقی میں اپنے محدود وسائل خرچ کر رہی ہیں۔

پاکستان میں کوالیفائیڈ نرسز ، دائیوں ، دانتوں کے ڈاکٹرز اور فارماسسٹس کی کمی ہے ۔ پاکستان میں خواتین کی صحت کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جا رہی ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات خاصی زیادہ ہے ۔ ملک میں خواتین کی اکثریت خون کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہے ۔

صحتِ عامہ کے ناقص نظام کا اثر اسہال کے بڑھتے ہوۓ معاملات خصوصاً بچوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔معاشرے کے امیر طبقے کو صحت کی سہولیات تک بہتر رسائی حاصل ہے کیونکہ وہ نجی ہاسپٹلز کے متحمل ہو سکتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف غریبوں کو بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ حکومت صحت کی خدمات کی فراہمی میں معیار کو یقینی بناۓ ۔ اسے صحت سے متعلق پیشہ ور افراد کو بہتر مراعات فراہم کرنی چاہیئیں ۔ اور تربیتی اداروں کے نظام کو بہتر کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیۓ ۔ تاکہ پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے ۔ کیونکہ ایک صحت مند قوم ، بہتر پیداواری اور صحت مند معیشت کو یقینی بنا سکتی ہے ۔

آئینِ پاکستان کے مطابق سواۓ وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کے ، صحت کی دیکھ بھال بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ کورونا، ایڈز ، پولیو اور کچھ دیگر توسیعی پروگراموں کے نفاذ کی اور حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کی ذمہ داری بڑی حد تک وفاقی وزارتِ صحت پر ہے ۔

پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ نجی اور سرکاری شعبہ پر مشتمل ہے ۔پاکستان میں نظامِ صحت کی حالت یہ ہے کہ نجی شعبہ ، آبادی کا تقریباً 70 فیصد خدمت کرتا ہے ۔ پاکستان میں بنیادی طور پر خدمت کے نظام کی فیس ہے ۔ سرکاری طور پر صحت کے حوالے سے بدانتظامی اس حد تک عیاں ہے کہ نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبے ریگولیٹری فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں ۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد سے بھی کم آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے ۔ اور اوسطً ہر فرد ایک سال میں ایک سال سے بھی کم ہیلتھ کیئر سینٹرز تک جاتا ہے ۔ ہیلتھ کیئرسینٹرز میں جانے میں عدم دلچسپی کی وجہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور خاص طور پر وہاں خواتین کی کمی ، غیر حاضری کی اعلٰی شرح ، سہولیات کا ناقص معیار اور ادویات کی عدم دستیابی شامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف پاک فوج ، پاکستان ریلوے ، اٹامک انرجی اور بہت سے دیگر ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنے ملازمین کو بہترین صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

صحت کی پالیسی کی تعریف فیصلے ، منصوبے ، اور اقدامات کے طور پر کی جاسکتی ہے ۔ جو معاشرہ میں صحت کی دیکھ بھال کے مخصوص اہداف کے حصول کے لیۓ کئے جاتے ہیں ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ مل بیٹھکر عوام کی صحت کے حوالے سے ایک واضح اور جامع پالیسی مرتب کریں ۔ نئے ہاسپٹلز بناۓ جائیں ۔نئے ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ملازمتیں دی جائیں ۔ پیشہ ور نرسز کو تعینات کیا جاۓ ۔ غریب عوام کے لیۓ مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاۓ ۔ تاکہ غریب عوام کو بہتر اور مفت صحت کی سہولیات میسر آ سکیں اور اُنکا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے ۔

Twitter Handle : @MansurQr

Comments are closed.