بت شکنی سے مندر کی تعمیرتک تحریر: فاطمہ ہاشمی

0
72

بت شکنی سے مندر کی تعمیر تک
تحریر فاطمہ ہاشمی

خبر ہے کہ اسلام آباد کے شہر میں حکومت پاکستان نے مندر کی بنیاد رکھوا دی ہے
اس پہ بہت سے لوگ اس پہ سوال اٹھا رہے ہیں لیکن برا ہو اس سیاسی فرقہ واریت کا جس نے حق کہنے سننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی سلب کر لی ہے اور بہت سے مذہبی لوگوں اس موقع پہ نیوٹرل ذہن دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور اس کو وہ مذہبی رواداری اقلیتوں کے حقوق سے جوڑتے پاے جاتے ہیں
اب سوال یہ ہے کہ اقلیتوں کے حقوق ہیں کیا؟ اور یہ کون بتائے گا ؟ کیا اقلیتوں کے حقوق کے نام جو من مرضیاں چاہے کرتے جائیں یاں اس کا کوئی دائرہ کار ہے ہر مذہب و ملک نے اپنے اقلیتوں کے حقوق بیان کئیے لیکن اسلام نے اقلیتوں کے جائز حقوق کا بہت خیال رکھا ہے لیکن اسلام نے شرک کو بالکل حرام قرار دیا ہے اور اس کی تبلیغ پہ بھی پابندی عائد کی ہے اور اس کو ظلم عظیم بتایا ہے کہ اللہ سے شرک روا رکھا جائے جس اللہ نے کائنات کو پیدا کیا اس نے شرک کی اجاذت نہیں دی اگرچہ اسلام میں زبردستی نہیں لیکن شرک کا اڈا بنانا یا اسکا ساتھ دینا بھی جائز نہیں
مختلف ممالک پہ اسلامی فوجوں کی یلغار کے بعد وہاں لوگوں کی عبادت گاہوں کو بلاجواز مسمار نہیں کیا گیا لیکن اس کےباجود تاریخ اسلام میں مکہ میں بتوں کی تباہی سے ایران کے آتشکدے کے بجھنے اور محمود غزنوی کے بت شکن بننے کے واقعات موجود ہیں اسکے برعکس عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ دیا گیا مگر تعمیر تو ان کی بھی نہیں کی گئی حالانکہ وہاں اللہ کی عبادت ہوتی تھی جبکہ مندر تعمیر کرنا تو بالکل محال ہے
ہمارے جوشیلے لوگ تو انتہا درجے کے سوالات کرتے پائے گئے
کہ جناب یہ بتائیں اگر ہم ان کی عبادت گاہ تعمیر نا کریں تو وہ بھی حق رکھتے ہیں ہم پھر بابری مسجد کو کیوں روتے ہیں ؟ اس کا مطلب ہے کہ کفار کے ممالک میں اسلامی عبادت گاہیں بھی نا ہوں وغیرہ جیسے سوالات کرتے پائے گئے
بھائی اسلامی حکومت نے کسی ملک پہ ذور نہیں دیا کہ وہ مساجد تعمیر کروائے لہذا لوگ اپنی مدد کے تحت مساجد تعمیر کرتے ہیں
اسی طرح اسلامی حکومت پہ بالکل فرض نہیں کہ ان کی عبادت گاہوں کو تعمیر کرے اور شرک کے اڈے بنائے اور اس کفار کی مدد کرے
اب بتائیں اس کائنات کا سب بڑا ظلم جس کی تبلیغ کھلے عام کرنا اسلامی حکومت میں جائز نہیں ہے کجا کہ اسلامی حکومت خود اٹھ کر اس کے مراکز کھولنے لگے
اب یہ بتائیں کیا حق و باطل سچ و جھوٹ برابر ہیں ہمارے لوگ لاشعوری طور پہ مذہبی رواداری کے سبق سن سن کر اس کو برابر سمجھ بیٹھے ہیں
گر کفار مساجد بنائیں تو اس زمین پہ یہ اللہ کا حق ہے جس سے وہ دور جا چکے ہیں اور حق نہیں دے رہے تھے لیکن اگر ہم بت کدے بنائیں تو یہ ظلم عظیم جس کی ہماری شریعت قطعًا اجازت نہیں دیتی
یعنی عجیب بات اک بندہ جھوٹ سے سچ پہ آجائے تو کیا اب سچے کو بھی جھوٹا بننا چاہیے کہ جی روداری ہے برابری ہونی چاہیے دیکھئے ناجی آج اس نے سچ کو مانا ہے لہذا ہم بھی آج جھوٹ کی مدح سرائی کریں کفار نے تو حید کے لیے مسجد بنوا دی ہے لہذا ہم بھی شرک کے لیے مندر بنادیں
غلط و صحیح کیسے برابر ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کفار کے لیے اعلانیہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور مزید مذہبی ادارے بنانا منع ہے
اب رہی حکومت پاکستان پاک لوگوں کا ملک اسلام آباد جہاں اسلام کو آباد ہونا تھا وہاں پہ مسجد و مدرسہ کو محض اس لیے حکومت گرا دیتی ہے کہ سرکاری ذمین ہے اور سرکار کی اجازت کے بنا کوئی مسجد نہیں بن سکتی اور بہت سے بزر جمہر اس بات کو اسلام سے ہی ثابت کرتے پائے گئے کہ مسجد نبویؐ کی ذمین خریدی گئی وغیرہ اس لیے یہ مسجد و مدرسہ ناجائز ہیں لہذتمام تر خطرات کو نظر انداذ کر کے فتنہ و فساد کا درواذہ کھولا گیا اور مسجد و مدرسہ جو آباد تھا اس کو شہید کیا گیا جس سے ملک میں انتشار پیدا ہوا اور خوارج کا فتنہ بھی بطور سزا ہم پہ مسلط ہوا
اب اسی اسلام آباد کو کیا سوجھی کہ وہ مندر اللہ کی بغاوت و نافرمانی اور ظلم عظیم کا سہرہ اپنے سر سجانے لگا اور بزر جمہر لوگ اور بصیرت سے عاری علم سے نا آشناء اس کو مذہبی رواداری کا اک عظیم کارنامہ گرداننے گا
اگرچہ اسلام آباد میں ہندووں کی اک بڑی تعداد بھی ہوتی تب بھی مندر تعمیر کرنا درست نا ہوتا کجا کہ جب وہاں محض چند لوگ ہوں اور سرکاری خزانے سے شرکے اڈوں کو کھولا جائے جبکہ مسجد میں بجلی کے بل میں ٹی وی کا ٹیکس لگا کر بھیجا جارہا ہو
درحقیقت بات یہ ہے کہ کفار کو خوش کیا جا رہا ہے پیچھے خود کو نیوٹرل روادار اور کفار کے لیے نہایت نرم گوشہ رکھنے والا ظاہر کرتے یہ اسلام آبادیے تجارتی و دیگر مقاصد رکھتے ہیں وہ جی ایف اے ٹی ایف ہے معیشت کا مسلہ ہے اسلام پسندوں پہ پابندی لگانا اور اور کفار کو خوش کرنے تمام حربے نہایت ہی بودے ہیں کیوں کہ اللہ نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ یہ یہود نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور تم انکو خوش کرنا چاہو تو یہ خوش نا ہوں گے حتیٰ کہ تم ان کے مذہب کو اختیار کر لو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن ، تم ہو
بیچ کھاتے جو اسلاف کے مدفن ، تم ہو
ہونکے نام جو قبروں کی تجارت کر کے !
کیا نا بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟

وہ اپنے مطالبات بڑھاتے ہی جائیں گے وہن نے اس امت کو تباہ کر دیا ہے نبی ؐ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جب تم گائے کی دموں کو پکڑ لو گے کھیتی باڑی میں لگ جاو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پہ ذلت مسلط کر دے گا اور تب تک نہیں اٹھائے گا جب جب تک تم اپنے دین (یعنی جہاد) کی طرف واپس نہیں پلٹتے عزتوں کا راستہ جہاد جبکہ ذلتوں کا راستہ معاش کے پیچھے لگ کر جہاد چھوڑنا حافظ سعید کو مجرم بنانا اور مندروں کو تعمیر کرنا ہے بت شکنوں کی اولاد آج بت فروش بنی درحقیقت اقبال نے خوب عکاسی کی
ہاتھ بے ذور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث، رسوائی، پیغمبر ہیں !
بتائیں آج محمد عربیؐ جنہوں بتوں کو توڑا تھا اس مندر کی خبر سے خوش ہوتے
حقیقت ہے کہ الحاد نے بصیرت چھین لی ہے اور ہاتھوں میں ذور نہیں اور دل میں خوف ہے کہ معیشت کے بنا کیسے جنگ لڑیں گے جبکہ مومن ہو توبے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
بقول اقبال
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، . اور . پسر آذر ہیں !
اب دیکھیں ابراھیم علیہ اسلام بت شکن تھے لیکن آج ابراھیم کے روحانی فرذند پسر آذر ہیں یعنی معاملات الٹ چکے ہیں بت شکنوں کے وارث اب بت فروشی پہ آگئے
بادہ آشام نیا، بادہ نیا ، بت بھی نئے
حرم کعبہ نیا ، بت بھی نئے ، تم بھی نئے
#فاطمہ_ہاشمی
#ہاشمیات

Leave a reply