بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے واقعے میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی لاشوں کے حوالے سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، جعفر ایکسپریس کے حملے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی لاشوں کو شناخت کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال لایا گیا تھا، تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایک گروہ نے ان لاشوں کو ہسپتال سے زبردستی چھین لیا اور فرار ہو گئے۔
پولیس حکام نے بیان دیا ہے کہ وہ اب تک پانچ میں سے تین لاشوں کو بازیاب کر چکے ہیں، جب کہ باقی دو لاشوں کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔ ہسپتال میں لاشوں کی شناخت کا عمل ایک قانونی ضرورت ہے اور یہ عمل مکمل ہونے کے بعد ہی ورثا کو لاشیں واپس کی جاتی ہیں۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے لاشوں کو چھیننے کی یہ حرکت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ کمیٹی اس سے قبل بھی لاپتہ افراد کے بیانیے کو اجاگر کرنے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتی رہی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دہشت گردوں کی لاشوں کو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے تاکہ ان کے بیانیے کو مضبوط کیا جا سکے۔ ان دہشت گردوں کو جب مارا جاتا ہے تو وہ مسخ شدہ لاشوں کا بیانیہ بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، جس سے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مقصد شناختی عمل کو روکنا ہے تاکہ عوام کو یہ نہ پتا چل سکے کہ یہ لاشیں دراصل وہ دہشت گرد ہیں جو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی میں شامل تھے۔ اس طرح کی کارروائی کے ذریعے کمیٹی عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اپنے جھوٹے بیانیے کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اس حرکت سے ان کی اصلی حقیقت سامنے آ گئی ہے اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ کمیٹی دراصل کالعدم BLA کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت بلوچ یکجہتی کمیٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے اور ان کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔
ماہ رنگ بلوچ کو جیل منتقل کر دیا گیا
ماہ رنگ بلوچ پر سفری پابندی کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
کوئٹہ،خود کش دھماکہ کرنیوالا ماہ رنگ بلوچ کا مسنگ پرسن نکلا
دہشتگردوں کی سہولت کار،ملک دشمنوں کی ایجنٹ،ماہ رنگ بلوچ پر مقدمہ درج