18 اگست 2018 پاکستان کی تاریخ کا وہ دن تھا کہ جب کرکٹ کی دنیا کا نامور کھلاڑی اور 1992 کے ورلڈ کپ کا فاتح کپتان یعنی عمران خان نے وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھایا.یوں اگر دیکھا جاۓ تو وزیراعظم بنانا اتنا اسان تو نہ تھا تقریباً بائیس سال کی جدوجہد کے بعد اس مقام کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوۓ کہ وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھا سکیں.
حکومت میں آتے ہی عمران خان نے سو دن کی کارکردگی کا حدف اپنی نو منتخب کابینہ کو سونپ دیا۔جس میں مختلف طرح کے حدف مقرر کیے گے۔ جن میں سے کچھ حدف مکمل کرلیے اور بعض رہ گئے. سو روز مکمل ہوتے ہی حکومت کو اپوزیشن نے ٹف ٹائم دینا شروع کردیا ۔اور ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کو عدالتوں اور نیب کی جانب سے مختلف کیسوں کو سامنا کرنا پڑھ گیا۔ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف بیٹی مریم نواز ، بیٹے حسن نواز اور حسین نواز ،بھائی شہباز شریف بھتیجے حمزہ شہباز یوں کہیں تو ن لیگ کی مرکزی قیادت مختلف کیسیز کا شکار ہوگئ
اسی کے ساتھ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی مرکزی قیادت جن میں سرفہرست سابق صدر پاکستان عاصف علی زرداری کو نیب ریفرنسز کا سامنا کرنا پڑا. خیر وقت کا پہیہ گھماتا رہا اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔
کیونکہ آدھی سے زیادہ اپوزیشن تو جیل میں تھی حکومت کو کچھ سکون کا سانس آیا مگر اسی دوان مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا۔ ڈالر کا ریت آسمان سے باتیں کرنے لگا ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہوتی گئی کبھی آٹا کا بہران اور کبھی چینی کا بہران پیدا ہوجاتا۔ حکومت ایک مشکل سے نکلتی اور دوسری مشکل میں پھنس جاتی۔رہی صحیحی کثر covid-19 نے نکال دی پوری دنیا کو کرونا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہوگیا.
پاکستان میں بھی لاک ڈاون لگادیا گا۔حکومت کے لیے مشکل وقت تھا۔ لیکن اس وقت عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی ایک لیڈر ہیں انکو نے سمارٹ لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ کیا جہاں جہاں وبا تشویشناک حد تک پھیل جاتی صرف اسی علاقہ میں 7 سے 14 روز کا لاک ڈاؤن لاگیا جاتا.
اور ساتھ میں ہی احساس پروگرام سے ذرائع پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام چلایا گیا جس میں حکومت پاکستان کی جانب سے مستحق خاندانوں کو 12 ہزار ہوۓ دیے گئے تاکہ انکے گھر کا نظام چل سکے۔ عمران خان کے انہی فیصلوں کو دنیا بھر میں سہرایا گیا.اور یہی وجہ تھی کے خطہ میں سب سے کم متاثر ہونے والا ملک پاکستان تھا۔
اب بات کرتے ہیں جرنل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خطاب کی جہاں پہلی دفعہ اسلام و فوبیا کے خلاف آواز اٹھائی یوں کہیں تو مسلمانوں کے دلوں کی آواز بلند کی گئی۔ کہ ہمیں اپنے آخری نبی صلی الله عليه و آلہ وسلم کی ناموس سے بڑھ کی کوئی چیز عزیر نہیں ہے گستاخانہ خاکوں کو روکا جاۓ۔جرنل اسمبلی میں حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے لیے اور ہمارے آخری نبی صلی الله عليه و آلہ وسلم کی ناموس کی خاطر کسی نے آواز اٹھائی ہے تو وہ فرد واحد عمران خان ہیں
اب آتے ہیں موجودہ سیاسی صورتحال کی جانب اس وقت اپوزیشن کی تمام جماعتوں وزیراعظم کے خلاف اتحاد کرلیا ہے۔ اپوزیشن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لانا چاہتی ہے موجودہ وزیراعظم کسی نہ کسی طرح اتارنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن حکومتی اتحادیوں اور منحرف تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہے۔
دیکھا جاۓ تو حکومتی جماعت بھی دو واضع گروپ میں تقسیم ہوچکی ایک ترین گروپ اور دوسرا گروپ تحریک انصاف کے منحرف اراکین ھیں۔ترین گروپ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے اگر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپنی کرسی سے استعفیٰ دیتے ہیں۔ تبھی ترین گروپ وزیراعظم کو عدم اعتماد میں ووٹ دے گا۔دوسری جانب تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی سندھ ہاوس میں قیام کرنے کی خیریں بھی منظر عام پر آگئیں سندھ حکومت کی جانب سے مکمل سہولت منحرف اراکین کو سپورٹ کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کی مسلسل کوشش ہے کسی طرح عدم اعتماد کامیاب ہوجاۓ دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو صدر اور وزیراعظم کون ہوں گے انکے ناموں کا علان بھی کردیا گیا یے۔ حکومت کے اہم اتحادی "ق لیگ” اور ” ایم کیو ایم ” سے بھی اپوزیشن کے مسلسل رابطے میں ہیں.
عمران خان نے اس صورت حال اور عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور فل فور عوامی رابطہ مہم یعنی جلسوں ریلیوں کا آغاز کردیا. کپتان اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ شہر در شہر جارہے ہیں اور دیکھ رہیں اگر عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو کیا عوام ان کے ساتھ ہے کے نہیں ؟؟
کپتان ابھی تک تقریباً دس شہروں میں جلسے کرچکے ہیں یہ ماننا ہوگا کہ عوام اب بھی عمران خان پر اعتماد کرتی ہے۔
اگر دیکھا جاۓ تو پوزیشن نے یہ سوچ کر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لاۓ ہوں گے. کہ وہ عوام میں انکی مقبولیت ختم ہوچکی ہے. مہنگائی آٹا چینی اور کھاد کا بہران ہے اب انکو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹانا آسان ہوگا۔میرے تجزیہ کے مطالبق اپوزیشن نے عمران خان کے لیے اگلے الیکشنز میں کامیابی کا رستہ ہموار کردیا ہے۔ کیونکہ اس وقت مہنگائی کا جن بے قابو تھا۔ملک معاشی حالات سے دوچار تھا عمران خان اور انکی حکومت اس وقت ایک گہرے گڑھے میں پھنسل چکے تھے انکے لیے الکیش جیتنا اور دوبارہ حکومت بنانا ناممکن تھا لیکن اپوزیشن اسے ممکن بناتی نظر آرہی ہے۔
کہا جاۓ تو اس وقت عمران خان کو کسی معجزہ کا انتظار تھا کہ وہ کسی طرح عوام میں اپنی قبولیت تو دوبارہ بحال کرلیں جو ہوگیا عمران خان نے فائدہ اٹھایا اور عوامی رابطہ مہم کا آغاز کردیا دیکھا جاۓ تو عمران خان دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں اسلام آباد کے کامیاب جلسے نے یہ ثابت کردیا.
ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان
ٹھیک کرے گا سب کپتان
الله پاک اس وطن عزیز کو اپنی حفاظت میں رکھے آمین
کالم نگار: ضیاء عبدالصمد
جی میل: ziaabdulsamad18@gmail.com
ٹویٹر اکاؤنٹ :@ZiaAbdulSamad