سی ڈی اے عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی خدمت میں لگی ہوئی ہے؟ عدالت

اسلام آباد کے مختلف گاؤں کے متاثرین کو معاوضوں کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین سی ڈی اے محمد عثمان کو 16 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے متاثرین کو تسلیم شدہ معاوضوں کی عدم ادائیگی آئین میں دیئے حقوق کی خلاف ورزی ہے ریاست شہریوں کو حقوق دینے میں ناکام رہی ہے ،چیئرمین سی ڈی اے وضاحت کرے کہ متاثرین کو معاوضے ابھی کیوں نہیں دیئے گئے؟آپ کو پتہ ہے کتنا بڑا ایشو ہے اس کو آپ ایک عام کیس کی طرح لے رہے ہیں، ان کی زمینیں چالیس چالیس سال پہلے آپ نے لے لی ہیں، اس عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ ان متاثرین کے کلیم ان کو دیئے جائیں گے،بائیس ہزار پلاٹ سی ڈی اے نے چیئرمین اور اپنے ممبروں کے نام کر لیے،کیا آپ چاہتے ہیں ہم چیئرمین سی ڈی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں؟سی ڈی اے عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی خدمت میں لگی ہوئی ہے؟

تعمیراتی پراجیکٹس کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم،وزیراعظم کے معاون خصوصی کو طلب کر لیا

سرکاری زمین پر ذاتی سڑکیں، کلب اور سوئمنگ پول بن رہا ہے،ملک کو امراء لوٹ کر کھا گئے،عدالت برہم

جتنی ناانصافی اسلام آباد میں ہے اتنی شاید ہی کسی اور جگہ ہو،عدالت

راول ڈیم کے کنارے کمرشل تعمیرات سے متعلق کیس ،اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم

اسلام آباد میں ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں،ایلیٹ پر قانون نافذ نہیں ہوتا ،عدالت کے ریمارکس

اگر کلب کوریگولرائزکر دینگے توجو عام آدمی کا گھربن گیا اس کو کسطرح گرا سکتے ہیں؟ عدالت

گھر غیر قانونی ہے تو کارروائی کریں،عدالت کا اہم شخصیت کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضہ کیس پر حکم

قبل ازیں ایک سماعت کے دوران اسلام آباد میں نئے سیکٹرز کی تعمیرسے متاثرہ شہریوں کو معاوضوں کی عدم ادائیگی پر عدالت برہم ہو گئی ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہرسطح پرمفادات کا ٹکراؤ سامنے آجاتا ہے ،ریاست کو توشہریوں کی حفاظت کرنی چاہیے تھی،مسئلہ یہ ہے ریاست عام شہری کا تحفظ نہیں کررہی ،ریاست صرف ایلیٹ کلاس کی خدمت کررہی ہے،شہریوں کی انصاف تک رسائی کی راہ میں ہرجگہ رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں،شہری انصاف لینے نکلیں تو تکنیکی رکاوٹوں سے تھک ہارکربیٹھ جاتے ہیں ،حکام ان شہریوں کی جگہ خود کو رکھ کردیکھیں جنھیں اپنی زمینوں سے ہٹا کر بے گھرکردیا گیا ،خود سوچیں آپکے گاؤں کی پوری زمین حکومت زبردستی لے اورڈی سی ریٹ ادا کر دے، کسی کی زمین سرکاری تحویل میں لینے کیلئے بین الاقوامی اصول موجود ہیں،یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے،جن کی زمینیں لی گئیں وہ متاثرین ہمارے لیے اہم ہیں،آئینی عدالت نے عوامی حقوق کا تحفظ کرنا ہے ،شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا،

Comments are closed.