اگر کلب کوریگولرائزکر دینگے توجو عام آدمی کا گھربن گیا اس کو کسطرح گرا سکتے ہیں؟ عدالت

0
38
islamabad high court

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق راول جھیل کےکنارے سیلنگ کلب کی تعمیر کیخلاف کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی، چیئرمین سی ڈی اے عدالت میں پیش ہوئے،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کورٹ کواچھا نہیں لگ رہاکہ آپکو بارباربلایاجائے،جب بھی وزیراعظم کے نوٹس میں کوئی معاملہ لایا تو وہ حل ہوا ہے،چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت میں کہا کہ کلب والاپروجیکٹ زون تھری جبکہ فارم ہاؤسزوالادوسراپروجیکٹ زون فورمیں ہے،ماسٹرپلان میں زون فور مکمل گرین ایریا تھا،عدالت نے متاثرین کو ادائیگیوں کیلیے ایک کمیشن بھی قائم کر رکھا ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر 30 سال بعدکسی متاثرہ شخص کو ادائیگی ہوئی بھی تواس کا بھی کیا فائدہ،وزارت کے افراد ہی بالواسطہ یہ سوسائٹیاں چلا رہے ہیں،چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ جب کسی وزارت کا نام آتاہےتولوگ سمجھتےہیں کہ یہ متعلقہ وزارت کاپروجیکٹ ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے پاس درخواستیں بھی آرہی ہیں، وزیراعظم کا جو اپنا ویژن ہے سارا کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے،آپ کیلیے تو بہت اچھا ہے اس کی اونر شپ ڈائریکٹ وفاقی کابینہ کو چلی جاتی ہے،

چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ کیا اسلام آبادانتظامیہ وزارت داخلہ کااٹیچ ڈیپارٹمنٹ ہوسکتی ہے؟یہ پوائنٹ ہم نے اٹھایا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ سوسائٹی بنالیتے ہیں اور پھراین اوسی کیلیےاپلائی کرتے ہیں، چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ سی ڈی اے کے پاس آج پیسے آسکتے ہیں تو پہلے کیوں نہیں آسکتے تھے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کاجو بھی ایشو اٹھائیں وہاں قانون کی خلاف ورزی نظر آئےگی،آپ بتائیں کہ کس نے عام آدمی کے لیے کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی؟ جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ سی ڈی اے کا سیکٹر آئی15 ایلیٹ کا نہیں بلکہ عام آدمی کے لیے تھا،

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہاں عام لوگوں کے ساتھ تو فراڈ ہوا ہے،اسلام آباد انتظامیہ کا تو لینڈ کے لحاظ سے کوئی کردار نہیں،کیا آپ نےوفاقی کابینہ یاوزیراعظم کواس حوالےسےبتایا؟آج سی ڈی اے کمزور کیوں ہے؟ہر کوئی ایلیٹس کی خدمت میں لگا ہوا ہے،اگر آپ دوسروں کو پلاٹ دے سکتے ہیں تو مزدور کو کیوں نہیں دیتے؟ جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ 1992میں ریگولیشن میں ترمیم کرکےزون فورمیں پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیزکواجازت دی گئی،

عدالت نے کہا کہ کیا آپ وہاں قانون پرعمل کراسکتے ہیں؟آپکا کام قانون پرعمل درآمد کرانا ہے،جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ یہ ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے،ہم نےنوٹسز جاری کیے ہیں،مارگلہ روڈ سے بھی تجاوزات ہٹا رہے  ہیں، پہلے سی ڈی اے کے بجٹ کا 80 فیصد تنخواہوں میں چلا جاتا تھا،اب ہم نے سی ڈی اے کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے، اب 60 فیصد بجٹ ڈیولپمنٹ اور 40 فیصد تنخواہوں اورسروسز کا ہے،ریونیو اور پولیس افسر کی ملی بھگت سے زمینوں پر قبضہ ہوتا ہے،سی ڈی اے میں ڈائریکٹر لیول کے افسروں کو ذمے دار ٹھہرا کر ایکشن لیا ہے،

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے کتنے ذمے دار افراد کو نوکریوں سے نکالا ہے؟ چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت میں جواب دیا کہ ملازمت سے نہیں نکالا، افسران کی معطلی کی گئی، اس وقت بھی آدھے پٹواری معطل ہیں، سیلنگ کلب 93-1992میں تھا لیکن اسٹرکچر مختلف تھا، عدالت نے کہا کہ عدالت کو دستاویز دکھائیں جہاں سی ڈی اےبورڈ نےسیلنگ کلب کی منظوری دی،جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ عدالتی حکم کےبعدوفاقی کابینہ نےسی ڈی اے بورڈ کو معاملہ بھیجا،عدالت نے کہا کہ آپ نے قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرناہے اس کےعلاوہ کچھ نہیں،سیلنگ کلب کیا اسپورٹس بورڈ کے دائرہ کار میں نہیں آتا؟ جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ سیلنگ کلب کی زمین سی ڈی اے کی ملکیت ہے،سی ڈی اےنےسیلنگ کلب کو نوٹس جاری کیےلیکن عمارت تیزی سےتعمیرکرلی گئی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تحقیقات کرائیں،آپ نےقانون کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے اور کچھ نہیں کرنا،ہمارے وکلا اور بار ممبرز کو بھی کلب وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہےہم بھی وہاں کچھ بنالیں؟جب قانون پر عملدرآمد ہی نہیں تو پھر تو یہ بھی کیا جاسکتا ہے، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے معاملہ سی ڈی اے بورڈ کو بھیجا ہے،ایک اسٹرکچربن چکاہےتوہمارے پاس 2 آپشن ہیں،اسے گرادیں یاریگولرائزکردیں،

اسلام آباد ہائیکورٹ کا راول جھیل کے قریب کمرشل بلڈنگ سیل کرنے کا حکم

آئی بی افسران کا ہاؤسنگ سکیم کے نام پر بڑا دھوکہ، رقم لیکر ترقیاتی کام کروانے کی بجائے مزید زمین خرید لی

ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے، سپریم کورٹ نے دی حکومت کو مہلت

فلمسٹار لکی علی کا فراڈ ہاوسنگ سوسائٹیوں سے عوام کو چونا لگانے کا اعتراف،نیب نے کی ریکارڈ ریکوری

وفاقی انٹیلی جنس بیورو آئی بی کے افسران کی جانب سے اسلام آباد میں پراپرٹی کا کام شروع کئے جانے کا انکشاف

وفاقی انٹیلی جنس بیورو آئی بی کے افسران کی جانب سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر اربوں کا فراڈ

آئی بی کی ہاوسنگ اسکیم کے فراڈ پر پوسٹ لکھنے پر صحافی کا 15 سالہ پرانا فیس بک اکاؤنٹ ہیک

آئی بی افسران کی ہاؤسنگ سکیم،دس سال پہلے پلاٹ خریدنے والوں کو قبضہ نہیں ملا، نیب کہاں ہے؟ عدنان عادل

ملک میں غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

نیب سے کون خوفزدہ تھا؟ ترمیمی آرڈیننس کیوں لائے؟ وزیراعظم نے بتا دیا

نواز شریف کے قریبی دوست میاں منشا کی کمپنی کو نوازنے پر نیب کی تحقیقات کا آغاز

نواز شریف سے جیل میں نیب نے کتنے گھنٹے تحقیقات کی؟

تحریک انصاف کا یوٹرن، نواز شریف کے قریبی ساتھی جو نیب ریڈار پر ہے بڑا عہدہ دے دیا

نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کی مدت ختم، نیب کو پھر مل گئے وسیع اختیارات

علیم خان کی سوسائٹی کیخلاف عدالت میں روزدرخواستیں آرہی ہیں،اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس

علیم خان اتنے بااثرکہ ریاست نے اپنی زمین استعمال کیلئے دے دی؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس

کوئی ایم پی اے ہے یا وزیر؟ قانون سے بالاتر نہیں،علیم خان اراضی قبضہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے ریمارکس

اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت نہیں تورا بورا ہے،وفاقی ادارے اسٹیٹ ایجنٹ بنے ہوئے ہیں،عدالت کے ریمارکس

تعمیراتی پراجیکٹس کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم،وزیراعظم کے معاون خصوصی کو طلب کر لیا

سرکاری زمین پر ذاتی سڑکیں، کلب اور سوئمنگ پول بن رہا ہے،ملک کو امراء لوٹ کر کھا گئے،عدالت برہم

جتنی ناانصافی اسلام آباد میں ہے اتنی شاید ہی کسی اور جگہ ہو،عدالت

راول ڈیم کے کنارے کمرشل تعمیرات سے متعلق کیس ،اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ اسکو ریگولرائزکر دینگے توجو عام آدمی کا گھربن گیا تو پھراس کو کسطرح گرا سکتے ہیں؟ چیئرمین سی ڈی اے یقینی بنائیں کہ حکم امتناع کی خلاف ورزی نہ ہو،کیس کی مزید سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی

اسلام آباد میں ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں،ایلیٹ پر قانون نافذ نہیں ہوتا ،عدالت کے ریمارکس

Leave a reply