چاۓ کی طلب اور گیس شٹ ڈاون………. از حفیظ اللہ سعید

0
56

آج حسب معمول دوکان پہ تھا ناشتے کے وقت سے پہلے گھر سے پیغام آیا ناشتہ منگوا دیں۔وجہ پوچھنے پہ جواب ملا کہ گیس نہیں آ رہی اس لیے آج آپ ہوٹل والوں کے مہمان ہیں۔

"سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے”
کے مصداق لڑکے کو ہوٹل کی طرف بغرض خرید ناشتہ روانہ کیا۔ مزیدار چنے اور تندوری چپاتی سے پیٹ پھاڑ ناشتہ کیا۔ڈٹ کر ناشتہ تو کر لیا لیکن وہ کیا کہتے ہیں ( روح اقبال سے معذرت کے ساتھ )

"ناشتہ تو کر لیا پل میں بھر میں بھوکے پیٹ والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے چاۓ کے بنا یوں رہ نہ سکا”

گھر والوں نے کہا کہ چاۓ گیس آنے پہ ہی مہیا کی جاۓ گی۔انتظار فرمائیے آپ کا مطلوبہ چاۓ کا کپ بوجہ گیس شٹ ڈاون دستیاب نہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا صبر کے گھونٹ پی کے چپ کر گیا۔ جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے جلدی دوکان بند کی اور تیاری کرکے جمعہ پڑھنے مسجد کو پدھارے مابدولت لیکن طبعیت میں اک عجیب سی سستی چھائی ہوئی تھی۔خطبہ جمعہ نے سستی کو دو آتشہ کر دیا اور ذہن ایسے ماؤف ہو گیا جیسے بی پی لو ہو۔ واپس گھر آ کے محترمہ گیس کی دستیابی کا پوچھا لیکن جواب نفی میں ملا تو بنا کچھ کھائے پئے بستر سنبھالنا مناسب سمجھا۔ تھوڑی دیر بعد پیارے بھائی حامد کی کال آئی جس میں انہوں نے بعد از عصر کھانے کی دعوت دی جس کو ناساز طبع کے بنا قبول نہ کرتے ہوۓ معذرت کی.

شام میں اٹھا تو جان افزا خبر موصول ہوئی کہ بی گیس آ چکی ہے اور چاۓ پی لیں۔فنٹاسٹک ٹی کا ایک کپ معدے کی نظر کیا تو ابھینندن کی طرح آنکھیں روشن اور دنیاوی حقائق واضح ہو گئے۔ چاۓ کا کپ پینے کے بعد عقدہ کھلا کہ بی پی لو کا معاملہ نہیں تھا بلکہ چاۓ کی طلب نے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اس سارے معاملے میں بنیادی کردار گیس شٹ ڈاون تھا جس کی وجہ سے چاۓ نہ پی سکا اور ہیرونچیوں جیسی کیفیت ہوگئی۔ آج اندازہ ہوا کہ نشے کی طلب کتنی شدید اور جان لیوا ہوتی ہے۔

محکمہ گیس کے لئیے شعر عرض کیا ہے ( افتخار عارف سے معذرت کے ساتھ )

چاۓ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
گیس والوں کو وہ گالیاں دیں ہیں جن سے واقف بھی نہیں تھے

از حفیظ اللہ سعید

Leave a reply