چھاتی کے سرطان سے آگاہی۔ پنک ربن تحریر شائستہ سرور آرائیں

0
86

بریسٹ کینسر جیسے اردو زبان میں چھاتی کا سرطان کہا جاتا ہے۔پاکستان میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے جان کی بازی ہار دیتی ہیں وجہ آگاہی نہ ہونا خصوصاً ہماری دیہات کی خواتین تو اس بیماری کے نام سے بھی نا واقف ہیں علاج تو پھر دور کی بات ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ ذہنی پسماندگی کہہ لیں عورت چاہے پڑھی لکھی ہو یا انپڑھ  اپنے جسم کے پوشیدہ گوشوں میں درد کوئی تکلیف محسوس کریں گی تو خود سے دوائیاں کھا لیں گی مگر  بے پردگی جھجک شرم میں ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گی چاہے موت بھی سامنے ہو ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہو جائیں گی مگر مجال ہے لبوں سے اپنی اذیت بیان کریں اور چھاتی کا سرطان بھی جسم کے حساس حصّے کا کینسر ہے اس پر ہمارے معاشرے میں  بات کرنا بہت ہی مشکل چیلنج ہے۔ ہمارے ملک میں کئ علاقوں میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے بھی خواتین مرد ڈاکٹرز کے پاس جانے کی ہمت ہی نہیں کر پاتی ہیں اور ایسے میں وقت ہاتھ سے نکل جاتا۔
اکثر آپ نے اپنے اردگرد دیکھا ہو گا عورت بیمار ہے جی فلاں نے جادو کر دیا پیر سائیں کے پاس دم کروایا ہے وغیرہ وغیرہ باتیں سننے کو ملتی ہیں اور اس چکر میں بیماری کا بر وقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے عورت ایک زندہ لاش بن جاتی ہے۔ چھاتی کے سرطان جیسی بیماری میں چھاتی میں گلٹی محسوس ہوتی ہے درد اتنا نہیں ہوتا اور ایسے میں ان دم کرنے والوں کی چاندنی ہو جاتی ہے اور مریضہ گھر کے کام کاج با آسانی کر رہی ہوتی ہے تو اسے لگتا ہاں جی میں ٹھیک ہوں ایسے کرتے بیماری کی ایک سٹیج کراس ہو جاتی ہے یعنی کے لا علمی یہی وجہ ہے کہ پہلی سٹیج پر تشخیص چار فیصد سے بھی کم ہے۔
اس وقت پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے یہلے ہم یہ سنتے تھے کہ یہ مرض بڑی عمر کی خواتین میں پایا جاتا ہے لیکن اب کم عمر بچیاں بھی اس بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ اس موذی بیماری سے متعلق  شعور اجاگر کرنے کے لئے عالمی دنیا سمیت پاکستان میں اکتوبر کے مہینے کو بریسٹ کینسر سے بچاؤ کے طور پر منایا جاتا یے۔ مختلف پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں ڈاکٹرز ٹاک شوز کے ذریعے اس بیماری سے متعلق آگاہی دے رہے ہوتے ہیں۔
اس مہینے آپ کسی کو فون کریں آپ کو چھاتی کے سرطان سے آگاہی کا پیغام  سنائی دے رہا ہو گا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب لوگ اس بیماری پر بات کرتے ہیں انہیں شعور آیا ہے جس تیزی سے یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح کے پروگرام  بس اکتوبر کے مہینے تک محدود نہیں رکھنے چائیے بلکہ ہر ماہ  دیہی علاقوں میں خاص کر ایسے پروگرامز منعقد کرانے چائیں تاکہ خواتین باشعور ہونے کے ساتھ خود اعتماد بھی ہو سکیں۔
اب  بات کر لیتے ہیں چھاتی کے سرطان کی علامات پر سب سے پہلے عورت کو یہ پتا ہونا ضروری ہے کہ چھاتی دکھتی کیسی ہے تاکہ اگر کسی قسم کی تبدیلی ہو تو وہ بر وقت جان سکے اپنا جسمانی معائنے کے ساتھ وہ میمو گرام اور کلینیکل بریسٹ ایگزام کروا سکے یہ ہی وہ ٹیسٹ ہیں جس کی وجہ سے کینسر کی تشخیص ممکن ہوتی ہے۔ علامات پر ہم نظر ڈالیں تو چھاتی میں درد محسوس ہونا جلد کا سرخ کھردرا ہونا چھاتی کے مختلف  حصوں یا پوری چھاتی پر سوجن جلن کا ہونا دھبے پڑ جانا بغل یا چھاتی پر گلٹی کا ہونا نپل میں تبدیلی سرخ ہونا  سخت ہونا سائز اور ان کی ساخت میں تبدیلی کا ہونا چھاتی  سے دودھ کے علاوہ خون یا کسی اور مادے کا اخراج یا پیپ کا نکلنا۔ اس کے علاؤہ جینیاتی وجوہات، خاندانی ہسٹری ماہواری میں بے قاعدگی،بچوں میں وقفے کی دوائیوں کا استعمال الکوحل کا زیادہ استعمال موٹاپا وغیرہ  اگر ان میں سے لگے یہ علامات آپ کو ہیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں خود سے ڈاکٹر نہ بنیں یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ چھاتی کا سرطان ہی ہو گلٹی کی کئ اور بھی وجوہات ہوتی ہیں اس لیے وقت ضائع کئے بغیر اپنے معالج سے رابطہ کریں۔
خواتین کو چاہیے کہ تیسں سال کی عمر میں پہنچ کر پانچ سال میں ایک مرتبہ اپنا میمو گرافی لازمی کروائیں اگر چالیس سال میں ہیں تو ہر دو سال کے بعد اپنا معائنہ کروائیں کیوں کہ چھاتی کے سرطان کا خطرہ اوسط چالیس سال کی عمر میں زیادہ ہوتا ہے اور پچاس سال کی عمر میں پہنچ کر ہر سال میمو گرافی کروانی چاہیے۔ چھاتی کے سرطان کی تشخیص کے لئے میمو گرافی کے علاؤہ تھری ڈی میموگرافی بریسٹ الٹراساونڈ ایم آرآئی ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں انکے فوائد بھی ہوتے ہیں رسک بھی اس لئے خواتین ڈاکٹر کے مشورے سے ہی ٹیسٹ کروائیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق چھاتی کے سرطان کو چار سٹیج میں تقسیم کیا گیا ہے پہلی سٹیج میں سرطان چھاتی تک محدود رہتا دوسری سٹیج میں بغل تک تیسری میں گردن تک اور چوتھی سٹیج میں پھیپھڑوں، جگر،ہڈیوں اور جسم کے دوسرے دور دراز حصوں تک پہنچ جاتا۔ ہمارے یہاں دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے شہر کی بات کریں یا کسی بڑے شہر کی پڑھے لکھے لوگ بھی اکثر ڈاکثر کے پاس جانے میں دیر کر دیتے ہیں اگر مریض پہلی یا دوسری سٹیج پر ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اس سٹیج میں مرض قابل علاج ہوتا ہے مریض ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرے تو وہ مکمل صحت یاب ہو جاتا ہے۔سٹیج تیسری اور چوتھی میں مریض کا مکمل علاج بہت مشکل ہوتا ہے جتنا مرضی اچھا علاج کروا لے پیچیدگیوں کا سامنا درپیش رہتا ہے۔ مریض کو کس قسم کے علاج کی ضرورت ہے اس کا انحصار کینسر کی سٹیج اور اس کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اس چیز کو سمجھیں کہ چھاتی کے سرطان کا اگر بروقت علاج کیا جائے تو یہ بیماری قابل علاج ہے۔
خود کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنا طرز زندگی بدلیں گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر ورزش کریں روانہ کچھ دیر چہل قدمی کریں متوازن غذا کا استعمال کریں میں نے کوشش کی بہت سادہ الفاظ میں اس بیماری سے متعلق آگاہی فراہم کروں الفاظ کا چناؤ ایسا کروں کہ ہر کوئی میری بات با آسانی سمجھ سکے۔
اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں ان سے بات کرتے رہیں انہیں وقت دیں اللّٰہ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے آمین ثم آمین۔۔!!
از قلم : شائستہ سرور آرائیں
@Shasii_Arain

Leave a reply