لفظ امید کہنے کو ایک بہت چھوٹا سا لفظ ہے۔ جو ہم کبھی خود کو دلاسا دینے کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔
مگر حقیقت میں زندگی کا انحصار امید پر ہی ہے۔ یہ زندگی جو دکھوں، مصیبتوں اور آزمائشوں کی آماجگاہ ہے۔ جہاں قدم قدم پر کوئی نئی آزمائش، ناکامی ہماری منتظر ہوتی ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر ہم امید کا دامن نہ تھامیں تو زندگی ہمارے لئے مشکل ہو جائے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لفظ انسان کی ساری زندگی کا خاصہ ہے ۔امید ہر دم انسان کے اندر ایک نیا جذبہ پھونکے رکھتی ہے کہ کل یہ ہو گا پرسوں یہ ہو گا۔ امید یہ ہے کہ انسان رات کو سوتا ہے تو کہتا ہے کل فلاں نے آنا ہے میں نے فلاں سے ملنے جانا ہے۔ امید یہ ہے جو ہر فرد کو ایک ایسے خواب میں رکھتی ہے۔ جو زندگی کی معمولی ٹھوکروں سے ٹوٹ جاتا ہے ۔
امید ایک لاحاصل خواب ہے۔ جو حقیقت کی پردو پوشی کرتا ہے۔ اور زندگی کی تلخیوں کو میٹھا رکھتا ہے۔
اگر کوئی بیمار ہے تو تندرستی کی امید ، غریب ہے تو دولت ملنے کی امید اور برے دنوں میں اچھے دنوں کی امید لگائے رکھتا ہے ۔
مگر اکثر لوگ ذرا سی پریشانی آنے پر مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور مایوسی کی حالت میں خود کشی جیسے حرام فعل کا ارتکاب بھی کر بیٹھتے ہیں۔ جس سے انسان کو کوئی فایدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس طرح وہ اپنی دنیا کہ ساتھ ساتھ آخرت بھی برباد کر لیتا ہے۔ اسی لئے تو احادیث مبارکہ میں مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ انسان سے اس کا اچھا گمان چھین کر مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا!
"اور میری رحمت سے نا امید نہ ہونا”
سورت الزمر 53
اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو فرما دیا کہ حالات جیسے بھی تلخ ہوں انسان کو اللہ کی رحمت پر نظر رکھنی چاہیے۔
ہماری مایوسی کی بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ ہم لوگ اللہ پر توکل کرنے کی بجائے خود ہی زندگی کے جھمیلوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ناکامی کی صورت میں ان مصائب سے گھبرا کر فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جو سراسر خسارے کا راستہ ہے۔
اسی طرح آج کے مشکل وقت میں ہم مہنگائی اور بے روزگاری جیسے وسائل سے پریشان ہو کر غیر قانونی ذرائع سے روزی کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس حرام رزق سے اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچے بھی والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے برائی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں ۔
اس کے بجائے اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے جو رازق ہے ۔ تو ہمیں آسان اور حلال طریقے سے بھی رزق مل سکتا تھا۔ مگر ہم نے امید کا دامن چھوڑ کر مایوسی کو چنا۔ تو اس سے ہمیں کوئی فایدہ حاصل نہ ہوا۔
اسی طرح جب ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں۔ اور اگر ہماری دعاؤں کی قبولیت میں تاخیر ہو جائے تو ہم اکثر مایوسی کا شکار ہو کر اللہ سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔
جبکہ اللہ تو کن فیکون کا مالک ہے۔ وہ جو چاہے ہو سکتا ہے۔ مگر ہم لوگ اچھا گمان رکھنے کی بجائے نا امید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں مضبوط شخصیت بننے کے لئے اپنے اندر چراغ امید کو جلائے رکھنا ہو گا ۔ تا کہ زندگی سہل رہے۔
@SanaullahMahsod