چترال :روڈ کی تعمیر میں ناقص کام کی ویڈیو بنانے پرکنسٹرکشن کمپنی کے غنڈوں کا سینئرصحافی پرقاتلانہ حملہ

غیر معیاری کام کی ویڈیو بناتے وقت عمر جان اینڈ کمپنی کے غنڈوں نے سینئر صحافی گل حماد فاروقی پر قاتلانہ حملہ کرکے اس پر تشدد کیا۔

چترال،باغی ٹی وی (نامہ نگار) چترال، بونی شندور سڑک پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی زیر نگرانی تعمیر ہونے والے ناقص اور غیر معیاری کام کی ویڈیو بناتے وقت عمر جان اینڈ کمپنی کے غنڈوں نے سینیر صحافی گل حماد فاروقی پر قاتلانہ حملہ کرکے اس پر تشدد کیا۔ ٹھیکیدار کے غنڈوں نے صحافی سے موبائل کیمرہ بھی چھین لیا جو بعد میں دیگر صحافیوں نے آکر بچ بچاؤ کرایا اور ٹھیکیدار کے غنڈوں سے ان کا موبائل واپس لیکر ان کے حوالے کیا۔ اس سلسلے میں جب سنیر صحافی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اپنی دکھ بھری کہانی کچھ یوں بیان کی۔

ہفتے کے دن میں دیگر صحافیوں کے ساتھ ریشن سے چترال آرہا تھا ،کاری سے نیچے سڑک پر کنکریٹ کا کام ہورہا تھا جس کی وجہ سے سڑک بند تھی۔ میں نے نیچے سے آنے والے صحافی حضرات سے بھی درخواست کی تھی کہ اس سڑک پر جاتے وقت کام کا معیار ذرا دیکھ لیں۔ جب میں نیچے اتر گیا تو دیکھا کہ کنکریٹ بالکل خشک ہے اورجس سڑک پر کنکریٹ ڈالاجارہا تھا وہ جگہہ بھی خشک تھی۔ میں نے عمر جان اینڈ کمپنی کے منشی جس کا نام مصطفے تھا میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کنکریٹ کا مسالہ کیوں اتنا خشک ہے حالانکہ جب کوریا کی سامبو کمپنی لواری ٹنل روڈ پر کنکریٹ کا کام کررہی تھی تو وہ مسالہ بہت نرم تھا اور سڑک کو بھی گیلا کرتے تھے۔ اس نے مجھے اس کی ویڈیو بنانے سے روکا کہ اس کا ویڈیو نہ بنائے کیونکہ آپ نے چند ماہ پہلے بھی اس قسم کا ویڈیو میڈیا میں دی تھی جس پر ینشنل ہائی وے یعنی این ایچ اے کے جنرل منیجر نے ہماری بنائی ہوئی حفاظتی دیوار کو مسمار کیا تھا۔

سینیرصحافی نے مزید بتایا کہ میں نے اسے بار بار سمجھایا کہ قانونی طور پر مجھے آپ ویڈیو بنانے سے نہیں روک سکتے کیونکہ میں ایک صحافی ہوں جو صوبائی اور قومی سطح پر کام کرنے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی کام کرتا ہوں مگر اس نے مجھے روکنے کی کوشش کی جب میں نے اپنی صحافتی خدمات جاری رکھیں تو اس نے اپنے مزدوروں سے کہا کہ فاروقی کو قتل کرو میں ذمہ دار ہوں۔

اس کے کہنے پر دیر دیوبندی کا صدیق اللہ نامی ایک مزدور اکر مجھے منہ پر سخت مکا مارا اور مجھ سے موبائل چھین لیا اور دیگر مزدوروں نے بلچے اٹھا کر مجھ پر حملہ آور ہوئے جس مزدور نے مجھے منہ پر مکا یعنی بکسن مارا تھا اس نے لوہے کا راڈ اٹھا کر مجھے قتل کرنے کے ارادے سے میرے سر پر مارنے والا تھا کہ اس دوران دیگر صحافی حضرات اور چند مقامی لوگ بھی پہنچ گئے، انہوں نے فوری طور پر اس کو پکڑا اور اس کے ہاتھ سے لوہے کا راڈ لے لیا جبکہ دیگر مزدوروں سے بیلچے لیکر مجھے ان سے بچالیا۔ اس دوران عمر جان اینڈ کمپنی کے منشی جس کا نام مصطفے بتایا جاتا ہے اس نے دھمکی دی کہ اگر دوبارہ آپ نے ہمارے کام کی ویڈیا بناکر میڈیا میں دی تو میں تمھیں قتل کروں گا کیونکہ باقی چترالی لوگ خاموش ہیں اور تم بار بار ہمیں تنگ کررہے ہو۔

گل حماد فاروقی نے بتایا کہ میں نے یہ معاملہ ڈپٹی کمشر لوئر چترال کے نوٹس میں بھی لایا اور سی ڈی ایم کے چیئرمین ، صدر اور دیگر اراکین کے نوٹس میں بھی لایا ۔ میں نے تھانہ چترال برائے قانونی کارروائی کیلئےدرخواست محررتھانہ کے حوالے کردی ہے تاکہ ان غنڈوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے۔

سینر صحافی نے کہا کہ میں نے ان لوگوں کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ میں ایک صحافی ہوں اور میرا یہی کام ہے کہ ہر غلط کام کی نشاندہی کرکے اسے میڈیا کے ذریعے حکام بالا کے نوٹس میں ل لاؤں مگر اس طرح مجھ پر حملہ کرکے مارنا اور قتل کی دھمکی دینا سراسر غلط ہے لہذا مجاز اتھارٹی سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ایسے شرپسند لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور تمام چترالی عوام سے بھِی درخواست ہے کہ اپنے جائز حق کیلئے میرے ساتھ دیجئے

سینیر صحافی نے اپنے ہم پیشہ رفقاء سے کہا کہ عمرجان کمپنی کے پراجیکٹ منیجر عرفان خٹک نے کچھ عرصہ قبل مجھے ٹیلیفون پر دھمکی دی تھِی کہ اگر ہمارے ناقص کام کی ویڈیویا تصاویر بنانے گئے تو اس دوران اگر میرے مزدوروں نے تم پر حملہ کرکے تمھارے ہاتھ پاؤں توڑا یا تمھیں نقصان پہنچایا یا قتل کیا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد عرفان خٹک مجھے راستے میں دوبارہ ملا اور گاڑی سے اتر کر مجھے ایک بار پھر دھمکی دینے لگا کہ اگر تم بار بار ہمارے ناقص کام کی پرچار کروں گےتو کہیں مزدور تمہیں قتل نہ کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل سیلاب کے دوران خیبر پحتون خواہ کا چیف سیکرٹری چترال آیاتھا جس سے انٹرویو کے دوران میں نے ایک سوال پوچھا تھا کہ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 کے تحت کوئی بھِی شحص دریا میں گندگی، ملبہ، پتھر یا روڑہ نہیں ڈال سکتا مگر عمرجان کمپنی نے بونی شندور سڑک کی تعمیر کے دوران اس پہاڑ میں زور دار دھماکے کرواکر پورا پہاڑ دریا میں گرانے لگا جس کے نتیجے میں اس ملبے کی وجہ سے دریا کی سطح بلند ہونے لگی اور اس نے سینگور کے مقام پر واپڈا کا ایک بجلی گھر بھی تباہ کیا اس کے ساتھ ایک نجی بجلی گھر بھی تباہ ہوا تھا اور سیلاب کا پانی دریا کے کنارے مکانات اور ہوٹلوں کے کمروں میں پانچ فٹ تک اونچا بہنے لگا تھا جس پر چیف سیکرٹری نے ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیا تھا جس پر ٹھیکیدار کو رنج تھا کہ اس نے چیف سیکرٹری سے کیوں یہ سوال پوچھا۔

سینیر صحافی کے درخواست پر تھانہ چترال کے پولیس نے ان ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

سینیر صحافی گل حماد فاروقی نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعظم، وزیر اعلےِ اور اعلےِ حکام سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ عمرجان کمپنی کے ناقص کام کا معائنہ کرنے کیلئے کوئی ایماندار افسر بھیجے کیونکہ اس کام کی نگرانی کرنے والے نیسپاک کی جانب سے ریزیڈنٹ انجنیر جو کنسلٹنٹ تھا اس نے کبھی بھی اس کام کی معیار کو چیک کرنے کیلیے زحمت نہیں کی اور ٹھیکیدار کو فری ہینڈ دیا تھا جس کی وجہ سے عمر جان کمپنی نے نہایت ناقص اور اتنا غیر معیاری کام کیا ہے کہ حفاظتی دیواریں ابھی سے خود بخود گرنا شروع ہو چکی ہیں۔ اس ٹھیکیدار نے بونی سڑک سے پچھلے سال تارکول اکھاڑا تھا مگر پچھلے دو سالوں سے لوگ اب اس کچی سڑک پر سفر کرتے ہیں اور وہ اس پر پانی بھی نہیں چڑھکاتا جس کی وجہ سے لوگ مٹی اور گرد وغبار کے باعث بیمار پڑتے ہیں۔

سیمنٹ کے کام پر ترائی نہیں ہوتی یعنی وہ اس پر پانی ہی نہیں ڈالتا جس کے بناء سیمنٹ والا کام چند دنوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ عمرجان کمپنی نے غیر قانونی طور پر سڑک کی تعمیر کا کام چھوٹے چھوٹے ٹھیکیداروں کو سبلٹ کیا ہے یعنی یہ کام ان کو دیا ہے جس کی وجہ سے کام کا معیار نہایت ناقص ہے۔

اس موقع پر سینیر صحافی نے بتایا کہ اگر کوئی ماہر ٹیم آکر اس کام کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ ان حفاظتی دیواروں میں کچرا ڈال کر صرف باہر سے سیمنٹ سے چھپایا ہے جبکہ اندر سارا کچرا پڑا ہے۔

سینر صحافی نے اعلے حکام کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے تمام صحافی برادری سے بھِی اپیل کی ہے کہ وہ سب مل کر ان غنڈوں کے خلاف آواز اٹھائیں کیونکہ یہ آزادی صحافت پر حملہ ہے اور آج اگر ہم چند غنڈّوں کے سامنے جھک گیے تو کل کسی اور صحافی کے ساتھ ایک بد عنوان ٹھیکیدار اور ان کے غنڈے اس قسم کا برتاؤ کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے بھِی این ایچ اے حکام کو غیر معیاری کام پر ان کا سرزنش کی تھی اور ان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ معیاری کام کرے اور اس کام کو بروقت مکمل کرے۔

Leave a reply