چترال میں پرامیڈیکل اسٹاف کی تقریریوں پر پابندی لگے تین سال گزر گئے مگر تاحال حکومت اور متعلقہ اداروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے متعدد امیدوار آج بھی شدید زہنی اذیت سے دوچار ہیں۔۔ کبھی پابندی کا بہانہ بنایا جاتا ھے تو کبھی دوبارہ NTS کا راگ الاپ کر امیدواروں کو مزید پریشان کیا جاتا ھے جوکہ ایک انتہائی افسوسناک اور انتہائی شرمناک عمل ھے۔۔ پختوانخواہ کے دیگر اضلاع میں مزکورہ شعبے میں سالانہ بھرتیاں کی جاتی ہیں۔نا NTSکے مسلہ ہوتاہے اور نا بین لگ جاتےہیں۔ مگر بدقسمتی سے چترال کے عوام کیساتھ کلاس فور سے لیکر پیرامڈیکل یا دیگر شعبوں میں بھرتیوں پر مافیاز کی رسہ کشی سے نقصان عام آدمی کا کیا جاتا ھے ۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔۔ دفتری بابوں کی ھٹ دھرمی ھو یا افسران بالا کی رعونت چترالیوں کیساتھ اس ناروا سلوک کا مداوا کرنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔۔

مزکورہ شعبے میں بھرتیوں کے حوالے سے پچھلے تین سال سے تعطل کے شکار آسامیوں کی بحالی کے حوالے سے معاون خصوصی وزیرذادہ صاحب ،ڈی ایچ او صاحب ،صدر سجاد احمدخان صاحب اور یوتھ صدر شفیق الرحمن صاحب کی انتھک کوششوں کے بعد بین جابز ریلکس ہوچکے ہیں۔
ڈی ایچ او صاحب انصاف پسنداورمیرٹ پر فیصلہ کرنےوالاانسان ہےیہ جو انٹرویو ہورہےہیں ان کواپ اپنی نگرانی میں کروا حقدار کو ان کےحق دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اگر اس کو NTS کے حوالے کرو گے تو پتہ نہیں پھر رزلٹ کب آٸیں گے اور کہی ایسا ناہوکہ دوبارہ ان پر بین لگ جاے۔اسلیے یہ جوجابز ہیں دوسرےضلعوں کی طرف انٹرویو کے بنیاد پر لیے جاٸیں ۔مزید انتظار کرنے سے زیادہ تر پیرامیڈکس over age ہوجاتےہیں ۔ جوکہ تین برسوں سے انتطار کی سولی پر لٹکے انصاف کے منتظر امیدواروں کی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ھے ۔۔۔

۔۔ اسلئے ھم اہلیان چترال و تمام امیدواران پیرامیڈیکل اسٹاف وزیر تعلیم پختونخواہ، ڈی جی ھیلتھ پختونخواہ سمیت جناب معاون خصوصی وزیرزادہ اور جناب اہم پی اے ھدایت الرحمان صاحب سے سوشل میڈیا کی وساطت سے گزارش کرتے ہیں کہ اس مسلے کو فوری طور پر حل کرایا جائے بصورت دیکر تمام افراد حقوق کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔۔ اب برادشت بلکل ختم ھوچکاہے

Shares: