چھوٹو گینگ اور لاڈی گینگ کے بعد اب اندھڑ گینگ
پرانی دشمنی کی آڑ میں گینگ متحرک لیکن پولیس بے بس اور مفلوج۔۔۔
کیا امن و امان کے لئے ہمیں ایک بار پھر فوجی آپریشن کی ضرورت ہے؟

صوبہ سندھ اور پنجاب بارڈر پر واقع صادق آباد ضلع رحیم یار خان معاشی اعتبار سے جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں سب سے زیادہ مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس مضبوطی کی وجہ سے یہ علاقہ ہمیشہ کسی نہ کسی گینگ کے نشانے پر بھی رہتا ہے۔ کبھی یہاں آئے روز لوگوں کو اغواء کر لیا جاتا ہے تو کبھی دن دیہاڑے بسوں اور ویگنوں کو روک کر لوٹ لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لڑکیوں کے ذریعے لڑکوں کو پھنسا کر اغوا کرنے کے بعد کروڑوں روپے تاوان ڈیمانڈ کیا جاتا رہا ہے۔
کبھی ان تمام کاموں کے لئے یہاں چھوٹو گینگ بہت مشہور ہوا کرتا تھا جس کے خلاف ہماری پولیس نے کئی آپریشنز بھی کئے تھے لیکن ہر بار پولیس کی ناکامی کے بعد جب حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تو آخرایک فوجی آپریشن کرکے اس چھوٹو گینگ سے نجات حاصل کی گئی۔
لیکن حالیہ مشکل یہ ہے کہ اب وہاں چھوٹو گینگ سے بھی بڑا ایک اندھڑ گینگ سامنے آ چکا ہے۔ جس نے چند دن پہلے پولیس چوکی کے قریب واقع ایک پٹرول پمپ پر باپ اور چار بیٹوں سمیت نو افراد کو قتل کیا ہے۔ قتل کے بعد اعترافی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ابھی مزید نو قتل اور بھی ہونے ہیں۔ لیکن اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود نہ تو ابھی تک وہ پکڑے گئے ہیں نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی ہے۔ اور نہ ہی کوئی امید نظر آ رہی ہے کہ غریب عوام کو اس سفاک گینگ سے کسی طرح نجات مل سکے۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ تمام معاملہ ہوا کیا؟ کیسے پولیس کی غفلت اور سالوں پرانی دشمنی نے نو عدد جانوں کو نگل لیا؟
دراصل مرنے والے غلام نبی اندھڑ اور اندھڑ گینگ کے سرغنہ جانو اندھڑ کا تعلق ایک ہی برادری اور قبیلے سے ہے۔
اور ان کے درمیان 1995 میں دشمنی کی بنیاد پڑی جب جانو اندھڑ کے خاندان کی ایک خاتون پر کاروکاری کا الزام لگایا گیا تھا جس میں غلام نبی اندھڑ کے خاندان کے ایک فرد کو قصوروار ٹھہرا کرجانو اندھڑ کے خاندان والوں نے اس شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں یہ معاملہ جرگوں اور مفاہمت سے حل ہو گیا تھا۔
اس کے بعد ایک واقعہ 2016 میں ہوا جب جولائی کے مہینے میں پولیس نے اندھڑ گینگ کے سات ڈاکوؤں کو ایک مبینہ آپریشن کے بعد کشمور میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ اور اس کے بعد رحیم یار خان پولیس ان کی لاشوں کو چوک ماہی میں لے آئی تھی۔ وہاں ان ڈاکووں کی لاشوں کو سرعام سڑک پر رکھا گیا تھا۔ وہاں جمع ہونے والی عوام نے اس کارروائی پر پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے بھی لگائے تھے۔

پولیس نے جن سات ڈاکوؤں کو مارا تھا ان میں اندھڑ گینگ کے سرغنہ جانو اندھڑ کے پانچ بھائی ایک بھتیجا اور ایک دوست بھی شامل تھا۔ ان میں ہی خانو اندھڑ بھی تھا جو اس وقت گینگ کا سرغنہ تھا۔
پولیس کی اس تمام کاروائی کے پیچھے جانو اندھڑ کو شک تھا کہ اس میں غلام نبی اندھڑاور اس کے خاندان والوں کا ہاتھ تھا اور انہوں نے پچھلے واقع کا بدلہ لینے کے لئے مخبری کرکے یہ تمام آپریشن کروایا تھا۔ کیونکہ اسی پٹرول پمپ پراس آپریشن کا جشن بھی منایا گیا تھا۔
لیکن غلام نبی اور ان کے خاندان کے افراد اس کی تردید کرتے تھے۔ انھوں نے کئی جرگوں اور مصالحتی کوششوں کے ذریعے جانو اندھڑ کو کئی بار یقین دہانی بھی کروائی تھی کہ اُن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی انھوں نے پولیس کو ایسی کوئی مخبری کی تھی۔ بلکہ ان کے خاندان نے کئی مواقع پر جانو اندھڑ اور اس کے گینگ کو کئی لاکھ روپے بھی ادا کیے تھے۔ یہاں تک کہ اندھڑ گینگ کے لوگ باقاعدگی سے ان سے بھتہ بھی وصول کرتے رہتے تھے۔ کئی مرتبہ ان کو ایک دوسرے کی شادیوں میں شریک ہوتے اور میل ملاقاتیں کرتے بھی دیکھا گیا تھا۔
لیکن آخر پانچ سال گزرنے کے بعد اب اس نے اپنے بھائیوں اور بھتیجے کا بدلہ لینے کے لئے دن دیہاڑے یہ تمام قتل کئے۔
اس تمام واقع کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے کہ کیسے پانچ موٹرسائیکلوں پر تقریبا ایک درجن لوگ دوپہر کے وقت صادق آباد کے اس پیٹرول سٹیشن پر آئے ان سب نے کندھوں پر بندوقیں لٹکائیں ہوئیں تھیں۔
جن کو دیکھ کر پیٹرول پمپ کے دفتر میں بیٹھے چند لوگوں نے چھپنے کی کوشش کی جبکہ باقی افراد یہ جاننے کے لیے باہر نکل آئے کہ معلوم کیا جا سکے آخر معاملہ کیا ہے۔
بندوقیں اٹھائے یہ لوگ پٹرول پمپ پر بنے دفتر میں داخل ہوئے وہاں کچھ دیر دونوں طرف کے لوگوں میں کچھ بات چیت ہوئی ایک شخص نے ان ڈاکووں میں سے ایک کے پاؤں بھی پکڑے اور ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی۔ لیکن چند لمحوں بعد ڈاکووں نے فائرنگ شروع کر دی اور دفتر میں موجود تمام کے تمام لوگوں کو قتل کردیا ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ اس کے بعد وہاں سے نکل پٹرول پمپ کے ساتھ ہی موجود دو دکانوں کے باہر بھی رک کر ڈاکووں نے خوف و ہراس پھیلانے کے لئے فائرنگ کی اور اس کے بعد وہاں سے فرار ہو گئے۔
اس پورے واقع میں نو افراد قتل ہوئے جن میں پانچ افراد کا تعلق ایک ہی گھر سے تھا یعنی ایک باپ غلام نبی اندھڑ اور اس کے چار بیٹے۔ اس کے علاوہ غلام نبی کا پانچواں بیٹا بھی اس واقعے میں زخمی ہوا ہے۔ غلام بنی اس پیٹرول پمپ کا مالک تھا جہاں یہ تمام حادثہ ہوا۔
اس تمام واقع کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے اور وہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو چکی ہیں۔
لیکن پولیس چوکی قریب ہونے کے باوجود پولیس ان ڈاکوؤں کو روکنے یا واردات کے فوری بعد گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
بلکہ دو دن بعد واقعے کی رپورٹ مجاہد امیر نامی ایک شخص کی مدعیت میں تھانہ کوٹ سبزل میں درج کی گئی۔ مجاہد کا بھائی بھی مرنے والوں میں شامل تھا۔ لیکن ان ڈاکووں کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ مجاہد امیر مقدمہ میں مدعی بننے سے ہی دستبردار ہو گیا۔ اور ایک بیان حلفی جمع کروایا کہ ہم نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ میں اس مقدمے میں بالکل بھی مدعی نہیں بننا چاہتا۔ اگر باقی مقتولین کے ورثا مدعی بننا چاہیں تو بے شک بن جائیں۔

لیکن اس وقت اس پورے علاقے میں کوئی ان ڈاکووں کے خلاف بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ جو بھی ڈاکوؤں کے خلاف بات کرتا ہے وہ اس سے رابطہ کرکے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ وہ خالی دھمکیاں نہیں دیتے عمل بھی کر دیتے ہیں۔
مطلب وہاں کے لوگ تو ان ڈاکووں کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں لیکن اگر کوئی ان کو نہیں جانتا تو وہ ہماری پولیس ہے۔ کیونکہ اندھڑ گینگ کے سربراہ جانو اندھڑ کو حال ہی میں خود پولیس نے کچے کے علاقے سے نکال کر آبادی میں لا کر بٹھایا تھا۔ اور جب وہاں کے مقامی لوگوں نے شکایت کی کہ یہ ڈاکو شہری علاقوں میں آکر بیٹھے ہوئے ہیں اور پولیس ان کے خلاف کاروائی نہیں کر رہی تو پولیس نے بڑے آرام سے یہ موقف اختیار کر لیا تھا کہ۔۔ اگریہ کسی کو تنگ تو نہیں کر رہے تو آپ کو کیا مسئلہ ہے۔
اس کے علاوہ کچھ اعلی افسران کچے کے علاقے میں بھی ان کے پاس گئے تھے اور جانو اندھڑ کو جرائم کی دنیا چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان سے مذاکرات کئے گئے کہ اگر وہ خود بھی جرائم کو چھوڑ دیں اور دوسرے ڈاکوؤں کو بھی ایسا کرنے پر قائل کریں تو ان کے خلاف قائم مقدمات ختم کیے جا سکتے ہیں۔
جس کے بعد ان ڈاکووں اور پولیس میں نہ جانے کیا طے پایا کہ جانو اندھڑ تقریبا ایک ماہ پہلے اپنے چند ساتھیوں سمیت چوک ماہی کے علاقے میں آکر اپنے قلعہ نما ڈیرے میں رہنے لگ گیا۔ جس کی کئی کئی فٹ چوڑی کچی دیواریں ہیں تا کہ ان میں سے بندوق کی گولی آر پار نہ ہو سکے۔
اس گینگ کے پاس بھاری اسلحہ اور جدید ہتھیار بھی موجود ہیں جن میں مشین گنیں، راکٹ لانچر، گرینیڈ، رائفلیں اور دیگر ہتھیار شامل ہیں۔
اور حال ہی میں اس گینگ نے اپنے ڈیرے سے پولیس کی ایک گشتی پارٹی پر فائرنگ بھی کی گئی تھی۔ لیکن پولیس نہ تو اس وقت کر چکی اور نہ ہی اب کچھ ہونے کی امید ہے۔
جس ڈھٹائی کا مظاہرہ یہ گینگ سوشل میڈیا پر اپنے جاری کئے گئے بیانات میں کر رہے ہیں اس کے بعد صاف نظر آتا ہے ان کو پولیس کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے یہ اس چھوٹو گینگ سے بھی کہیں زیادہ بڑا اور خطرناک ہو چکا ہے جس کے آگے ہماری پولیس کئی بار بے بس ہو چکی تھی اور پھر فوج کے ذریعے آپریشن کرکے اس کا خاتمہ کرنا پڑا تھا۔ اس لئے اب جو حالات بن چکے ہیں لگتا یہ ہے کہ اب ایک بار پھر ویسے ہی ایک آپریشن کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے ناسوروں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جائے اور عوام کو سکون کا سانس مل سکے۔

Shares: