پاکستان کی پہلی اوریجنل ویب سیریز کا اعزاز رکھنے والی ایکشن تھرلر سیریز ’چڑیلز‘ کو ویب اسٹریمنگ ویب سائٹ زی فائیو پر رواں سال 11 اگست کو ریلیز گیا جس نے ریلیز ہوتے ہی دھوم مچا دی تھی تاہم اب اسے پاکستانی شائقین کے لیے بند کرنے پر جہاں عوام کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا ہے وہیں شوبز شخصیات نے بھی اپنا ردعمل دیا ہے۔

باغی ٹی وی : ویب اسٹریمنگ ویب سائٹ پر ’چڑیلز‘ کے پہلے سیزن کی تمام 10 اقساط کو ہی جاری کردیا گیا، جن کے ریلیز ہوتے ہی دنیا بھر میں ان کی دھوم مچ گئی تھی- تاہم گزشتہ روز ’چڑیلز‘ کے ہدایت کار عاصم عباسی نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں بتایا تھا کہ پاکستان میں ان کی ویب سیریز کو بند کردیا گیا۔

انہوں نے ٹوئٹس میں ’چڑیلز‘ کو بند کیے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حیران کن طور پر جس ویب سیریز کی دنیا بھر میں تعریفیں کی جا رہی ہیں، اسے اپنے ہی ملک میں بند کردیا گیا۔

عاصم عباسی نے چڑیلز کو پاکستان میں بند کیے جانے کو نہ صرف فلم سازوں، اداکاروں اور آرٹسٹوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا بلکہ انہوں نے اس عمل کو خواتین روشن خیال طبقے اور مالی بہتری کے لیے اسٹریمنگ سائٹس جیسے پلیٹ فارمز کا سہارا لینے والے تخلیقی افراد کے لیے بھی نقصان دہ قرار دیا تھا-

عاصم عباسی نے اپنی ٹوئٹس میں کہا تھا کہ اس ملک کے متعدد فنکار اور اداکار مل کر کچھ نیا تخلیق کررہے ہیں تاہم ان کی محنت پر پانی پھیرا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں آرٹسٹوں کو ان کے کام کی وجہ سے دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں اور انہیں اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے۔

عاصم عباسی نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ چڑیلز کی پاکستان میں بندش نہ صرف فنکاروں اور اداکاروں، بلکہ رائٹرز ،پروڈیوسرز اور تکنیکی عملے کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ خواتین کے لیے بھی دل آزاری کا سبب ہے اور اس عمل سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہاں پر زن بیزار افراد کی حکمرانی ہے اور ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔

عاصم عباسی کے بعد شائقین نے بھی ’چڑیلز‘ کی پاکستان میں بندش پر برہمی کا اظہار کیا اور شائقین نے ویب سیریز کو بند کیے جانے کو آزادی اظہار رائے پر مہر قرار دیا تھا وہیں اب چڑیلز کو بند کیے جانے پر شوبز شخصیات نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔

اداکارہ ژالے سرحدی نے ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ چڑیلز کے حوالے سے یہ انتہائی شرمناک ہے کہ ہمارے اخلاقی معیار صرف منافقت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم خواتین کو ہراساں ہوتے دکھا سکتے ہیں لیکن اگر وہ بات چیت شروع کرنا چاہیں اور اپنے ہاتھ میں اختیار لینے کی کوشش کریں تو یہ ہمیں خوفزدہ کرتا ہے؟ اسے بند کرنا ایک بزدلانہ اقدام ہے۔


اداکارہ صنم سعید نے لکھا کہ ڈانس والے اشتہارات، فلموں اور ویب سیریز پر پابندی سے ریپ ختم نہیں ہوں گے اتنی منافقت کیوں کی جاتی ہے؟ بس بند دروازوں کے پیچھے ہو سب۔ ہماری بھولی عوام پر اثر نہ ہو جائے اگر ہم تخلیقی آزادی کو دیانتدار اور کھلی مانیں-


اداکارہ منشا پاشا نے لکھا کہ بدقسمتی سے ہم ضیا الحق کے دور کے اخلاقی پالیسنگ کے دور میں جارہے ہیں، دریں اثنا ملک میں صحافیوں کو خاموش کرایا جاتا ہے، بسکٹ کے اشتہارات کے پیچھے جایا جاتا ہے۔اب ٹی وی پر کون سا مواد ہونا چاہئے کون سا نہیں ہونا چاہئے اس کے بلاگرز نے ایک بنیادی وجہ کے طور پر تنقید کا آغاز کیا-


انہوں نے کہا کہ ابہماری شکایات اور کوئی مقامی پروڈکشن کا موازنہ غیر ملکی سے نہیں کریں گے۔ اس صنعت پر قابو پانے ، خاموشی اختیار کرنے اور اسے ختم کرنے کی مستقل کوششوں سے ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔


اداکار عثمان خالد بٹ نے لکھا کہ آپ نے چڑیلز پر پابندی لگادی؟ اب برائے کرم اس حقیقت پر توجہ دیں کہ پولیس موٹروے ریپ میں مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
https://twitter.com/ShamoonIsmail/status/1313847126472916992?s=20
گلوکار شمعون اسمعیل نے کہا کہ چڑیلز ہمارے معاشرے کے ان پہلوؤں کو ظاہر کرتی ہے جو حقیقت میں کثرت سے موجود ہے انہوں نے لکھا کہ اگر اس کی ری انیکٹمنٹ کو بیہودہ سمجھا جاتا ہے تو میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ محض پابندی لگا کر آنکھوں پر پٹی باندھنے کے بجائے جبری شادیوں اور ریپ کو روکنے کے لیے حقیقت میں کچھ کریں۔

واضح رہے کہ ہدایت کار عاصم عباسی کی ویب سیریز ’چڑیلز‘میں ایسی چار شادی شدہ خواتین کی کہانی دکھائی گئی ہےجو اپنے شوہروں کی بے وفائی کے بعد جاسوس بن جاتی ہیں۔

پاکستان کی پہلی ویب سیریز ’چڑیلز‘ میں شوہروں کی بے وفائی کے بعد جاسوس بن جانے والی چاروں خواتین اپنی جیسی دوسری عورتوں کی زندگی بچانے کے لیے کام کرتی ہیں اور بیویوں سے دھوکا کرنے والے شوہروں کو بے نقاب کرتی دکھائی دیتی ہیں اور اس دوران جب وہ جاسوس بن جاتی ہیں تو انہیں معاشرے کے کئی مکروہ چہرے دکھائی دیتے ہیں۔

جاسوس بن جانے والی خواتین پھر کم عمری کی شادیوں، بچوں کے ساتھ ناروا سلوک، زبردستی کی شادیوں، غربت، جرائم، رنگ و نسل کے واقعات اور خودکشی جیسے بھیانک حقائق کا سامنا کرتی ہیں۔

ویب سیریز میں ثروت گیلانی نے سارہ، یاسرا رضوی نے جگنو، نمرا بچہ نے بتول اور مہربانو نے زبیدہ کا کردار ادا کیا ہے اور ویب سیریز میں ان چار مختلف شعبوں وکیل ، باکسر،ویڈنگ پلانر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ایک گینگ کے طور پر دکھایا گیا ہے-

فیشن ہاؤس کے نام پر جاسوسی کا ادارہ چلانے والی چاروں خواتین کو اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے درجنوں خواتین کو فیشن اور ماڈلنگ کے نام ملازمت پر رکھتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

فیشن کے نام جاسوسی کا ادارہ چلانے والی چاروں خواتین کو برقع پہن کر بیویوں سے بے وفائی کرنے والے شوہروں کی جاسوسی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے.

لیکن دنیا بھر میں دھوم مچانے والی اس سیریز کو اس میں خواتین کے بولڈ کرداروں کی وجہ سے اور ایک ویڈیو کلپ میں بولے گئے نا زیبا مکالمے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہاں تک کہ گزشتہ روز سے چڑیلز پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ پر بھی رہا اور اس ڈرامے کے لئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں اور اس ڈرامے اور اس میں مسلمان خواتین کے کرداروں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں-

پاکستان میں چڑیلز بین کئے جانے پر ہدایتکار عاصم عباسی اور شائقین برہم

چڑیلز کو پاکستان میں بین کر دیا گیا

ویب سیریز ’چڑیلز‘ کی ٹیم پر فرانسیسی آرٹسٹ کا خاکہ کاپی کرنے کا الزام

’چڑیلز‘ شوہروں کی بے وفائی سے پردی اٹھاتیں ذہین بولڈ بہادر اور خوبصورت خواتین کی کہانی

پاکستان کی پہلی اوریجنل ویب سیریز ’چڑیلز‘ کا ٹریلر جاری

پاکستانی بہادر ،بولڈ اور ذہین ’چڑیلز‘ کی دنیا بھر میں دھوم

Shares: