سگریٹ نوشی کی تباہ کاریاں تحریر۔سید لعل حسین بُخاری

0
118

زندگی میں بہت کم لوگوں کو آپ نے اپنی موت کا سامان کرتے دیکھا ہو گا۔
مگر ایسے بہت سے چہرے ہیں،
جو ہر وقت ہمارے ارد گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔
یہ نہ صرف اپنی موت کو اپنے قریب تر کر رہے ہوتے ہیں،
بلکہ دوسروں کو بھی زندہ درگور کئے جانے کے امکانات بڑھا رہے ہوتے ہیں !
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ایسے کون سے لوگ ہیں جو خود تو ڈُوبے ہیں صنم ،مگر تجھے بھی لے ڈوبیں گے-؛
کے مصداق اپنی زندگی کے اندھیرے سفر میں مگن آنے والے خطرات کو جانتے بوجھتے اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگانے خراماں خراماں چلے جا رہے ہوتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہوتے ہیں،
جو نہ صرف اپنا پیسہ جلا رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے خون کی سُرخی کوسیاہی میں بدلنے کے درپے ہوتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہوتے ہیں،
جنہیں اپنی رگوں میں دوڑنے والے اس زہر کا قطعا” کوئی احساس نہیں ہوتا کہ اپنی ہی رگوں میں دوڑ رہے اس زہر کو انکی رگوں میں ڈالنے والا کوئی دشمن نہیں،
بلکہ وہ خود ہوتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہوتے ہیں،
جو اپنے دشمن خود ہوتے ہیں۔
انہیں اپنی زندگی کی بجائے اس دھوئیں سے پیار ہوتا ہے،
جو ان کی زندگی کو دھواں بنا رہا ہوتا ہے۔
ان میں سے کئی تو ایسے ہوتے ہیں،
جو جانتے بوجھتے موت کو گلے لگا رہے ہوتے ہیں۔
زہر کی پڑیا پر لکھی تحریر پڑھنے کے باوجود یہ لوگ اسی زہر کو خوشی خوشی اپنے اندر انڈیل کر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتےہیں۔
ان کی مثال اس کبوتر جیسی ہوتی ہے،
جو خطرہ سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے،
جس سے خطرے کے لئے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ کبوتر کی گردن دبوچ لیتا ہے۔
یہ لوگ بھی ایک ایسی منزل کے راہی ہوتے ہیں،جو کبھی نہیں ملتی،
جو منزل نہیں بلکہ ایک خوفناک گھاٹی ہوتی ہے،
جس میں بالاخر گر کے یہ لوگ اسی دھوئیں کے مرغولوں کی طرح غائب ہو جاتے ہیں،
جو دھواں انکی رگوں کو سکیڑ کر دل کی حرکتوں کا بھی کام تمام کر چکا ہوتا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں،
جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے مذہب میں خود کشی حرام ہے،
کچھ ایسا دانستگی،نادانستگی میں کر رہے ہوتے ہیں،
جو کسی طور بھی خودکشی سے کم نہیں۔
یہ ہومیوپیتھک قسم کی خودکشی کا ساماں بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایلو پیتھک دوائیوں سے اس خودکشی کو قدرے تاخیر سے آنے کے حربے اور نسخے بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہوتے ہیں،
جو گھنٹوں آپکا لیکچر سننے کے بعد ہونے والا ڈیپریشن ریلیز کرنے کے لئے اسی چیز کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں،
جس سے منع کرنے کے لئے آپ اپنا سر دیواروں سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ایک وقتی اور عارضی و مصنوعی سہارے کی خاطر اپنے خاندانوں کو ہمیشہ کے لئے بے سہارا کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہوتے ہیں،
جنہیں نہ اپنی اولاد کی پرواہ ہوتی ہے ،نہ بیوی بچوں کی اور نہ ہی اپنے ماں باپ کی۔
انہیں نہ تو اپنے مستقبل کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے سے وابستہ لوگوں کے حال اور مستقبل کی۔
جی ہاں !
میں زکر کر رہا تھا اپنے ان احباب کا،
جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں،جوجانتے بوجھتے ہوئے اپنے لئے ایک ایسی بند گلی کا انتخاب کرتے ہیں،
جس میں روشنی اور امید کی کوئی ایک کرن ،نکلنے کا کوئ راستہ بھی نہیں ہوتا۔
سگریٹ ایک ایسا خاموش زہر قاتل ہے،
جسے پینے والا سمجھتا ہے کہ سگریٹ پینے سےکچھ نہیں ہو گا۔
اور پھر بدقسمتی سے اسی کچھ نہ ہونے والی سوچ سے بہت کچھ ایسا ہو جاتا ہے،
جس کے ہونے کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے،
مگر جانتے بوجھتے موت کو گلے لگانا خودکشی کہلاتا ہے۔
اور خود کشی کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا۔
سگریٹ نوشی بھی میرے نزدیک خودکشی کی طرف بڑھتے ہوئے وہ قدم ہیں،
جنہیں بطور ایک زمہ دار شہری کے روکنا ہم سب کی زمہ داری ہے۔
سگریٹ نوشی سے سب سے زیادہ نقصان ہمارے دل کے پٹھوں اور جگر کے خلیوں کو ہوتا ہے۔
جو لوگ سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں،وہ بدقسمتی سے اپنے ارد گرد بیٹھے لوگوں کو یہ زہریلا دھواں فراہم کر کے گویا مفت موت بانٹ رہے ہوتے ہیں۔
امراض قلب کے ایک ماہر ڈاکٹر اور میرے دوست ڈاکٹر جنجوعہ نے مجھے ایک دفعہ دوران انٹرویو بتایا تھا کہ دل کے امراض کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ سگریٹ نوشی کا بڑھناہے۔
جس کی لت چھوٹے چھوٹے بچوں اور خواتین کو بھی پڑ چُکی ہے۔
سگریٹ کی ڈبیا پر لکھی وارننگ میں واضح طور پر یہ پیغام درج ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے،
جو پھپھڑوں کے کینسر میں مبتلا کر سکتی ہے۔
مگر لوگ پھر بھی پرواہ نہیں کرتے۔
وہ پھر بھی اسی خام خیالی میں مبتلا رہتے ہیں کہ بس چند کش ہی تو ہیں !
ارے بھائی کیا ہو جائے گا؟
اور پھر اسی گھن چکر میں پڑ کر سگریٹ نوشی کا شکار افراد ایسے ایسے خطرناک امراض کا شکار ہوجاتے ہیں،
جن کا علاج نہ صرف مہنگا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ہم لوگوں کی پہنچ سے بھی دور۔
کتنے ہی لوگ ہیں جو دنیا میں روزانہ سگریٹ نوشی کی بدولت اپنی اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
پوری دنیا میں سگریٹ نوشی کے خلاف مہمات چلائی جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک کاوش باغی ٹی وی کی ٹیم بھی کر رہی ہے،
باغی ٹی وی کی یہ کوشش لائق صد تحسین ہے۔
ایسی کوششیں سب اداروں کو بھی کرنی چاہییں،
جس سے سگریٹ نوشی کے مضمرات سے نوجوان نسل میں آگاہی پیدا ہو سکے۔
ہم سب کا بھی بطور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فرض ہے کہ ہم اس سگریٹ نوشی کے خلاف مہم میں اپنا حصہ ڈالیں۔
خصوصا” جو لوگ باغی ٹی وی کے لئے کالم لکھتے ہیں،
ہر ہفتے کم ازکم ایک کالم سگریٹ نوشی سے ہونے والے تباہ کن نقصانات پر بھی لکھیں۔
معاشرے میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے رجحان کو کم کرنے کے لئے حکومتی سطح پر مزید کوششوں کی ضرورت ہے،
صرف سگریٹ کی قیمتیں بڑھا دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔
قیمت بڑھانے والی یہ حکومتی ترکیب الٹا لوگوں کےگلے پڑ رہی ہے،
لوگوں کا مطلوبہ برانڈجب مہنگا ہوتا ہے تووہ کوئ سستا برانڈ ڈھونڈ لیتے ہیں،
کچھ لوگ شائد یہ جان کر حیران اور پریشان بھی ہوں کہ مارکیٹ میں بکنے والے سگریٹ کے جتنے سستے برانڈز ہیں،
وہ زیادہ نقصان دہ ہیں،
کیونکہ ان میں زہریلے نشہ آور مادے نکوٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
اس کالم میں میں نے آگاہی کی غرض سے مبشر لقمان کے پروگرام کھرا سچ کی طرح کچھ کڑوی کسیلی سچائیاں اور حقائق بیان کیے،
جو شاید ہمارے سگریٹ نوش دیوانے بھائیوں کو برے بھی لگے ہوں مگر جاتے جاتے پاکستان ٹیلی وژن کے ماضی کے ایک شہرہ آفاق مزاحیہ پروگرام ففٹی ففٹی میں قاضی واجد مرحوم کا ایک ڈائیلاگ سنا کو ماحول کی تلخی کو کچھ کم کرنے کی کوشش کروں گا۔
اس پروگرام میں کسی نے قاضی واجد سے کہا کہ یار سگریٹ نوشی چھوڑ دو،یہ تمہیں مار دے گی-؛
قاضی واجد نے جواب دیا کہ یار سگریٹ تو چھوڑ سکتا ہوں،
مگر نوشی کو نہیں چھوڑ سکتا،
کیونکہ وہ تمہاری بھابھی ہے۔
آخر میں ایکبار پھر باغی ٹیم کی سگریٹ نوشی کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر باغی ٹی وی کی پوری ٹیم بالخصوص مبشر لقمان،ممتاز حیدر ملک اور طہ بھائی کو خراج تحسین اور شاباش #

تحریر۔سید لعل حسین بُخاری
@lalbukhari

Leave a reply