سگریٹ نوشی اور شعرو ادب تحریر :سیدہ ام حبیبہ

0
80

قارئین محترم تمباکو نوشی پہ متعدد مضامین اور تحقیقات نظر سے گزریں ہر تحریر میں تمباکو نوشی کو مضر صحت لکھا گیا.
مگر کیا کہنے ان شعراء کے ان کانٹینٹ کریٹرز کے جنہوں نے سگریٹ نوشی کو مضر صحت تو لکھا مگر اس کے نقصانات کو اسقدر رومانوی انداز میں بیان کیا اور پردے پر دکھایا کہ دیکھنے والے کو سب بھول گیا مگر انگلیوں میں سگریٹ دبائے وجاہت سے بھرپور ہیرو یاد رہ گیا.
شعراء حضرات کے ہاں سگریٹ کچھ یوں ہے

کمرے میں پھیلتا سگریٹ کا دھواں
میں بند کھڑکیوں کی طرف دیکھتا رہا
کفیل آزرامروہوی

سگرٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیں
اور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے
والی آسی

گریباں چاک دھواں جام ہاتھ میں سگریٹ
شبِ فراق عجب حال میں پڑا ہوں میں
ہاشم رضا جلالپوری
اور شاعر افضل خان تو باقاعدہ ایک غزل لکھ بیٹھے سگریٹ کی شان میں
نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ
میں تجھکو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ

الغرض انصاف ادب و سخن پہ بھی سگریٹ کا دھواں اپنے نشانات چھوڑنے سے باز نہ آیا
اگر کبھی کسی طالبعلم کو تمباکو کے مضر صحت ہونے پہ لیکچر دینا چاہا بھی تو اس نے اقبال کے آخری ایام کا تذکرہ کر دیا کہ جی علی بخش تو ان کو حقہ دیا کرتا تھا وہ بھی تو پکے مومن تھے اب بندہ کیا کہے اردو ادب سگریٹ اور اقبال اور ہماری گہری خاموشی.
اب اس جملے سے ادب میں سگریٹ کی اہمیت کا اندازہ لگائیے
مشرف عالم ذوقی صاحب فرماتے ہیں

"سگریٹ اور چائے میں ان دو بڑی عادتوں کا غلام ہوں”

سگریٹ اور غمگین زندگی کا تو پوچھئے مت

سو یوں ہوا کہ پریشانیوں میں پینے لگا
غمِ حیات سے منہ موڑتے ہوئے سگریٹ

کسی فلم یا ڈرامے کے ہیرو کو غمگین ہونے کے بعد سگریٹ یا شراب پینا گویا حکایت ہو گئی
اور ہو بھی کیوں نہ پہلے دس بار اقساط میں ہیرو کے ساتھ انسیت اور ہمدردی کے جذبات ابھارے جاتے ہیں اور ہیرو کی عادات سے مرعوب کیا جاتا ہے
ہیرو کی دس اچھی عادتوں کا قائل ناظر کیا اس کی گیارہویں بری عادت کو برا گردانے گا؟

امیرانہ زندگی کا کون ہواہشمند نہ ہوگا.ہمارا ادب ہمارا میڈیا سگریٹ نوشی کو اتنا جاذب اور پرکشش بنا کر پیش کرتا ہے کہ نوجوان نسل ان ہیروز کو ان شعراء کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے بھی اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں.

تمباکو نوشی کے خلاف ہر مہم ناکامیاب اس لیے رہ رہی ہے کہ تمباکو نوشی کے خلاف ایک دن منایا جاتا ہے اور اس کے استعمال پہ سارا سال اشتہار اور اشعار چلتے ہیں.
کاروبار صحت پہ سبقت لے جاتا ہے سگریٹ کو انڈسٹری کہہ کر پلا جھاڑ لیا جاتا ہے. گھر کے گھر تباہ ہو گئے اس انڈسٹری کے ہوتے ہوئے.
دنیا میں ایسی کمپنیاں ہیں جو سگریٹ نوشی کرنے والوں کو نوکریاں نہیں دیتیں.بہت سے مقامات پہ سگریٹ نوشی ممنوع ہے.
اگر روک تھام کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کیے جائیں تو ممکن ہے چند سالوں میں یہ لعنت ختم کی جا سکے.
ابھی حال ہی میں کرونا ویکسین لگانے پہ جس طرح مجبور کیا گیا اسی طرح ہر ادارے میں اگر میڈیکل ریپورٹ لازمی قرار دی جائے سگریٹ نوشی کرنے والے اور نشے کے عادی ملازمتوں سے برطرف کیا جائے اور بھرتی کے قوانین میں بھی یہ شق شامل کر لی جائے.یہ ایک ناممکن تجویز ہے لیکن اگر چاہت ہو تو کیا نہیں ممکن.
اور سگریٹ کو رومانوی انداز میں پیش کرنے والے ہیروز اس سے ہونے والی بربادی بھی بیان کرتے ہیں
مگر وہ بربادی سبق آموز انداز میں بیان نہیں کی جاتی.

خدا سے دعا ہے کہ ہم تمباکو نوشی اور دیگر منشیات کے خلاف حقیقی معنوں میں اقدامات کریں محض دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا.

سگریٹ پہ میرا پسندیدہ شعر

میری بھی کیوں خراب کی مٹی
جاتے جاتے بتا تو دے سگریٹ

اور ہم سب جانتے ہیں سگریٹ کچھ نہیں بتائے گا قارئین بتائیں گے کہ یہ تحریر کا حد تک حقیقت رکھتی ہے آپکی آراء کی منتظر

@Hsbuddy18

Leave a reply