تل ابیب:فلسطینیوں سے شادیاں پرشہریت کا قانون دوبارہ متعارف:اسرائیل کی شرارتیں اورسازشیں کھل کرسامنے آگئیں ،اطلاعات کے مطابق اسرائیلی پارلیمان نے اکثریتی رائے سے جمعرات دس مارچ کو رات گئے ماضی کے جس متنازعہ لیکن عارضی طور پر متعارف کرائے گئے قانون کی بحالی کا فیصلہ کیا، وہ پہلی مرتبہ 2003ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون کے نفاذ کی مدت میں گزشتہ برسوں کے دوران بار بار توسیع کی جاتی رہی تھی۔
‘شہریت اور اسرائیل میں داخلے کا قانون‘ کے تحت اسرائیلی شہریوں سے شادیاں کرنے والے غزہ پٹی اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں کے مرد اور خواتین نہ تو اسرائیلی شہریت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں اسرائیل میں رہائش کے حقوق دیے جا سکتے ہیں۔ یہ قانون ‘نسل پرستانہ‘ ہے یہ قانون پہلی مرتبہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی احتجاجی تحریک انتفادہ کے دور میں منظور کیا گیا تھا۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ اسے اس قانون کی اپنی سلامتی کے لیے ضرورت ہے۔ اس کے برعکس ناقدین کا الزام ہے کہ اس قانون کا نفاذ اسرائیل کا ایک ‘نسل پرستانہ‘ اقدام ہے، جس کا مقصد ملک میں یہودی اکثریت کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔ ایک دوسری بات یہ کہ اس قانون کا اطلاق صرف فلسطینیوں پر ہوتا ہے اور مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں رہنے والے یہودی آباد کاروں پر نہیں کیونکہ ان کے پاس ویسٹ بینک میں رہتے ہوئے بھی اسرائیلی شہریت ہوتی ہے۔
کنیسیٹ کہلانے والی پارلیمان نے گزشتہ برس موسم گرما میں بھی اس قانون کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم تب اسے مخلوط حکومت میں شامل بائیں بازو کے اور عرب ارکان پارلیمان کی حمایت حاصل نہ ہو سکی تھی۔ حکومت میں شامل عرب جماعت نے اب بھی حمایت نہ کی سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت میں ملکی اپوزیشن نے بھی اس متنازعہ قانون کی بحالی کی اصولی حمایت تو کی، تاہم حکومت کو شرمندگی سے بچانے کے لیے رائے شماری کے دوران اس قانون کے حق میں ووٹ نہ دیا۔
یوں اپوزیشن کی بالواسطہ حمایت کے ساتھ حکومت اس قانون کو منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی، حالانکہ بائیں بازو کی جماعت میریٹس اور اسرائیلی عربوں کی جماعت متحدہ عرب لسٹ نے بھی اس قانون کی حمایت نہیں کی تھی۔ یونائیٹڈ عرب لسٹ نامی جماعت نے گزشتہ برس اس وقت تاریخ رقم کر دی تھی، جب یہ پارٹی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل ہو گئی تھی۔ یہودی اکثریت کا تسلسل یقینی بنانے کی کوشش کا اعتراف اسرائیل کی کٹر قوم پسند خاتون وزیر داخلہ گزشتہ کئی مہینوں کے دوران اس متنازعہ قانون کی بحالی کی مہم چلاتی رہی تھیں۔







