موسمیاتی تغیر اور ہماری زراعت.تحریر:عقیل ملک
ماحولیاتی تبدیلی کے زراعت خصوصاً گندم کی پیداوار پر اثرات کے حوالے سے کئی عالمی اداروں اور تحقیقاتی رپورٹس نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO) اور انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IFPRI) کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا زرعی پیداوار پر نہایت منفی اثر پڑ رہا ہے۔ FAO کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر گندم کی پیداوار میں کمی کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں اور ان سے وابستہ غیر متوقع موسمی حالات ہیں۔ اسی طرح ورلڈ بینک کی رپورٹ "کلائمیٹ چینج اینڈ ایگری کلچر” میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ اگر ان موسمی تبدیلیوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں گندم اور دیگر زرعی پیداوار میں 20 سے 30 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کمی کا سب سے زیادہ اثر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر ہوگا جہاں زراعت مقامی معیشت اور غذائی سکیورٹی کا بنیادی ستون ہے۔
انٹرگورنمنٹل پینل آن کلمیٹ چینج (IPCC) کی 2019 کی ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں جنوبی ایشیا جیسے علاقوں میں گندم کی پیداوار میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری سیلسیس اضافے سے گندم کی پیداوار میں تقریباً 6 فیصد کمی کا امکان ہوتا ہے ۔ اس سال پاکستان میں سموگ اپنے وقت سے پہلے کئی علاقوں کا متاثر کر رہی ہے اور اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ وقت پر بارشیں نہ ہونے کے سبب پانی کی کمی آج کے دور کا ایک انتہائی سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یہ مسئلہ خاص طور پر گندم پیدا کرنے والے علاقوں میں شدت اختیار کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافے اور پانی کے غیر مؤثر استعمال کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے جس سے آبپاشی کے وسائل سکڑتے جا رہے ہیں۔ پانی کی قلت کے سبب پاکستان جیسے زرعی ملک میں فصل کی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO) اور ورلڈ بینک کی رپورٹس میں زور دیا گیا ہے کہ پانی کے مؤثر استعمال کے لیے جدید آبپاشی کی تکنیکیں اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن ابھی تک تو پاکستان میں ڈرپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم جیسی تکنیکیں کو مکمل طور پر پاکستان میں متعارف ہی نہیں کرایا جاسکا۔ پاکستان نے 2017 میں یہ سسٹم 26000 ایکڑ پر انسٹال کیا تھا جس کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں ساوتھ افریقہ اور چائنہ نے اس سسٹم کے ذریعے پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ FAO کے مطابق ڈرپ ایریگیشن سسٹم میں پانی کی بچت روایتی آبپاشی کے مقابلے میں تقریباً 30 سے 50 فیصد زیادہ ہوتی ہے جس سے نہ صرف پانی کی بچت ہوتی ہے بلکہ پیداوار میں بھی بہتری آتی ہے۔ انٹرنیشنل واٹر مینیجمنٹ انسٹی ٹیوٹ (IWMI) نے بھی اپنی تحقیق میں نشاندہی کی کہ اگر پانی کی بچت کے لئے جدید طریقے استعمال نہ کیے گئے تو گندم سمیت دیگر زرعی پیداوار پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پانی کی بچت کے لیے مؤثر حکمت عملی، جیسے پانی کی دوبارہ کارآمدی اور زمین کی نمی کو برقرار رکھنے کے طریقے اپنانے سے نہ صرف پیداوار میں استحکام لایا جا سکتا ہے بلکہ پانی کی قلت کے مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور مسئلے نےبھی کاشت کاروں کو پریشان کر رکھا ہے کہ افراطِ زر اور شرح سود میں اضافے کے باعث پاکستان میں بیج، کھاد اور کیڑے مار دواؤں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس سے چھوٹے اور متوسط درجے کے کسانوں کو شدید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ زرعی اخراجات میںیہ اضافے نے نہ صرف پیداوار کی لاگت کو بڑھا رہا ہے بلکہ پیداوار کے معیار پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ محدود مالی وسائل رکھنے والے چھوٹے کسانوں کے لئے یہ اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں کمی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے اور گندم کی طلب کو پورا کرنے کے لئے گزشتہ برسوں کی نسبت پاکستان کے زر مبادلہ کا بیشتر حصہ دوسرے ممالک سے گندم کی خریداری پر خرچ کرنا پڑے گا۔
FAO کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں 70 فیصد کسان چھوٹے کسانوں کی کٹیگری میں آتے ہیں جنہیں جدید زرعی وسائل تک رسائی حاصل نہیں۔ پاکستان میں زراعت، خاص طور پر گندم کی پیداوار، حکومتی پالیسیوں کی کمزوریوں کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی اور زرعی اخراجات میں اضافے جیسے مسائل کے باوجود حکومت کی طرف سے مؤثر مدد اور مالی امداد فراہم نہیں کی جا رہی جس سے کسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) اور ورلڈ بینک کی رپورٹس کے مطابق حکومتی پالیسیوں میں تسلسل اور سبسڈی کی کمی نے کسانوں کی پیداواری صلاحیت کو محدود کردیا ہے۔ کسانوں کو مالی مدد سبسڈی اور جدید زرعی سہولیات تک رسائی فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا بہتر مقابلہ کر سکیں اور ملک میں غذائی خود کفالت کو یقینی بنا سکیں۔پانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئےحکومت نے سولر انرجی پر ٹیوب ویل چلانے کے لیے ایک پروگرام شروع کیا جو ایک اچھا اقدام ہے مگر اس پروگرام کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے فوائد زیادہ تر بڑے کسانوں تک محدود ہیں۔ یہ کسان پہلے سے مالی طور پر مضبوط ہیں اور ٹیوب ویل کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس چھوٹے کسان جو زراعت کے شعبے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اس پروگرام سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس پروگرام میں چھوٹے کسانوں کو نظر انداز کرنا ایک امتیازی سلوک ہے جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ زرعی ترقی کے لیے پالیسیاں صرف بڑے زرعی سرمایہ داروں کے مفاد میں بنائی جا رہی ہیں۔ چھوٹے کسانوں کے لیے اس پروگرام تک رسائی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر چھوٹے کسانوں کو نظر انداز کیا جائے گا تو زرعی ترقی کا خواب کبھی حقیقت نہیں بنے گا