دنیا میں سوئس کینال راہداری کے بعد پاک چین راہداری یا سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہے سوئس راہ داری ترکی کے کنٹرول میں ہے جو کہ براعظم ایشیا اور یورپ کو آپس میں ملاتی ہے مگر ادھر سب سے اہم سوال ایک پیدا ہوتا ہے کہ سی پیک منصوبے پر اربوں ڈالر لگانے والے چین کو کیا ملے گا اس کو سی پیک سے کتنا فائدہ ہوگا سی پیک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کے گوادر بندرگاہ سے شروع ہوتا ہوا چائنا جاتا ہے سی پیک صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ چائنا کی بقا کا بھی مسئلہ ہے چین اپنی اشیاء کی خرید وفروخت اور تیل کی خرید و فروخت کے لیے جو راستہ سی پیک سے پہلے استعمال کرتا ہے وہ راستہ آبنائے ملاقا کا سے ہو کر گزرتا ہے جنوبی چین کے سمندری راستے جہاں فلپائن ویتنام جاپان اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں ان تینوں ملکوں کا یہ کہنا ہے اور ماننا ہے کہ جنوبی چین میں جو سمندر لگتا ہے وہ ہماری ملکیت ہے اس میں کچھ حصہ فلپائن کے قبضے میں ہے کچھ ویت نام کے قبضہ میں اور ایک بڑے حصے پر جاپان اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے یہ سمندر جس کو آبنائے ملاکا کے نام سے دنیا جانتی ہے اور اسی آبنائے سے چین کی سب سے بڑی تجارتی سپلائی لائن گزرتی ہے اب یہاں پر ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ تینوں ہی ملک یعنی کے جاپان ویتنام اور فلپائن ان تینوں کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور امریکا کے ساتھ اتحادی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ چین ان تینوں ملکوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے چین کا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی جنگ کی صورت میں یہ سپلائی لائن بہت آسانی سے بند کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ سپلائی لائن ان تین ملکوں کے ساحل سے ہوکر گزرتی ہے اس کے برعکس اگر ہم دوسری طرف دیکھیں تو سی پیک سے پہلے پاکستان کے پاس بھی اسی طرح کی تجارتی سپلائی کے لیے ایک ہی راستہ موجود تھا جو کہ کراچی میں ہے انہی مشترکہ اہداف کی وجہ سے چین اور پاکستان نے چین-پاکستان راہداری منصوبے پر کام کرنا شروع کیا جس کا نام سی پیک رکھا کیا اور اس منصوبے کے ساتھ ہی چین کا سب سے بڑا مسئلہ گرم پانی کا وہ بھی حل ہوگیا یا اب چین بلا خوف و خطرگرم پانی اپنے ملک لے جا سکتا ہے اور استعمال کر سکتا ہے سی پیک میں اتنا زیادہ دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چین اپنے علاقوں کو ایک ساتھ ترقی دینا چاہتا تھا کیونکہ مشرقی چین دنیا بھر کی ہر سہولت سے آراستہ ہے وہی مغربی چین کی بہت ساری ریاستوں میں غربت نے اب بھی ہندوستان کی طرح ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اپنی ریاستوں کو ترقی دینے کے لیے چین سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبوں پر کام کر رہا ہے کیونکہ یہی وہ منصوبے ہیں جن پر کام کر کے چین ان علاقوں سے غربت کو ختم کر سکتا ہے کیونکہ جیسے ہی مغربی چین ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا تو چین ترقی یافتہ ملکوں کی دوڑ میں پہلے نمبر پر آ جائے گا یو اس کا دنیا پر حکمرانی کرنے کا خواب اور سپرپاور سٹیٹس حاصل کرنے کا خواب بھی پورا ہو سکتا ہے یہاں پر وہ کہاوت تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کیوں کہ ہندوستان اس خطے میں پہلے ہی بہت بدامنی پھیلا چکا ہے اور ایک سائیڈ پر وہ چائنا اور دوسری طرف وہ پاکستان کے خلاف زہریلے بیان جاری کرتا رہتا ہے اور اکثر رات کی تاریخی میں چھپ کر وار بھی کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور چین کا یہ منصوبہ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ اس کا سب سے بڑا مخالف بھی ہندوستان اور امریکہ ہیں جبکہ چین یہ سب چیزوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اس نے مخالفین کے منہ بند کرنے کے لئے اپنے ساتھ روس اور ترکی جیسے ملکوں کو بھی شامل کرلیا ہے کیوں کہ سی پیک چین سے شروع ہو کے پاکستان سے ہوتا ہوا گوادر بندرگاہ تک جاتا ہے اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ جو کہ چین کی مغربی ریاستوں سے شروع ہوکر پاکستان ایران اور ترکی سے ہوتا ہوا یورپ تک جاتا ہے ون بیلٹ ون روڈ سے پاکستان اور چائنا باآسانی اپنی مصنوعات کو یورپ کے بازاروں میں فروخت کر سکتے ہیں جہاں پاکستان کو سی پیک سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا وہاں پے اس کے کچھ منفی اثرات بھی ہے جس میں چائنا کا بلا ججھک پاکستان کے اندر انٹر ہونا ایران اور ترکی تک پاکستان سے روڈ کا جانا کیونکہ کہ ایران سے کافی زیادہ دہشتگرد پاکستان میں آ سکتے ہیں اب آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ یہ دونوں منصوبے پاکستان کو کس طرح اور کتنا فائدہ دیتے ہیں
Asghar Ali is digital media journalist, Columnist and Writer who writes for baaghitv.com.
for more info visit his
Twitter account @Ali_AJKPTI