ڈراموں کی اسٹوریز اور ہماری نسلیں ! تحریر علی مجاہد

0
43

آج کل اگر ہم ٹی وی چینلز کی بات کریں ویسے تو بہت ماڈرن زمانہ ہو گیا ہے ٹیلی ویژن کی تو ویلیو نہیں ہر چیز جب چاھیں جہاں چاھیں آپ کے موبائل،آم آئی پیڈ یا لیپ ٹاپ وغیرہ میں آسانی سے دیکھ سکتے ہیں بہرحال ہم بات کر رہے تھے ٹی وی چینلز کی سیٹینگ کی تو انکی سیٹنگ بھی بلکل اجیب ہے سب سے پہلے سارے فلموں والے چینلز پھر ڈراموں والے پھر نیوز والے اور پھر اینڈ میں کئی جا کر اسلامی چینلز، جو سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا وہ سب سے آخر میں اور جو آخر میں ہونے چاھیے تھے وہ سب سے پہلے ہوتے ہیں، آپ اگر شام 8 بجے کہ بعد ڈراموں والے چینلز دیکھیں گے تو کئی دائیں طرف سے عورت کو چانٹا لگ رہا ہوگا کسی کو بائیں طرف اور کئی پر الٹیاں ہوں گی پریگننسی ہو گئی میں یہ نہیں کہتا اس ملک میں عورتوں پر ظلم نہیں ہوتا مگر ہمارے ڈرامے والے بار بار ایک ہے چیز دیکھا کہ کیا کہنا چاھتے ہیں؟ کچھ دنوں پہلے ایک ڈراما (جدا ہوئے کچھ اسطرح) کا ٹریلر دیکھا کی جی وہ کوئی شادی ہو گئی ہے لڑکے لڑکی کی تو نانی جی کہتی ہیں یہ تو بہن بھائی ہیں وہ بھی رضائی والے مطلب دو کزن ہم عمر ہیں غلطی سے اپنے بچے کہ جگہ دوسرے کو دودھ پلا دیا تو ہوگئے رضائی بھائی بہن یعنی اپنی اولاد کو ہی نہیں پہچانا اور پھر نانی اما نے یہ تو بتا دیا یہ بھائی بہن ہے اور دوسری طرف اب لڑکی پریگننٹ ہو گئی ہے، اس ٹاپک کہ بعد آپکو پھر دیکھے گا ڈرامے کا دوسرا موضوع جس میں ہمیں دیکھایا جاتا ہے دیور بھابھی سے محبت کرتا یا لڑکی کئی جاب کرتی ہے تو وہاں بوس سے پیار کر بیٹھتی ہے بالکل بھی فرق نہیں پڑتا وہ شادی شدہ ہے یا اسکا بچہ ہے کچھ بھی نہیں یہ کہانی آپ نے پچھلے دنوں بہت نام سنا ہوگا ( میرے پاس تم ہو ) اسکا سین بیان کر رہا ہوں ہمارے یہاں آپکو صرف یہ دو ہی ٹاپک ملیں گے اور پھر ڈراما لکھنے والا کہتا ہے جو روز مرہ کی زندگی میں ہوتا ہے وہ دکھاتے ہیں ہم تو کیا ہمارے ملک میں ہمارے معاشرے میں بچے لوگ ٹیچرز نہیں بنتے یا پھر گورنمنٹ سکول یا ہسپتال کے ان لوگوں پر کہانی نہیں بن سکتی جو گھر بیٹھے بیٹھے تنخواہیں اٹھا رہے ہوتے ہیں میں ایسا ہر گز نہیں کہوں گا کہ سارے ایسا کرتے ہیں پر کچھ بھی آٹے میں نمک کے برابر لوگ ہی سہی کرتے تو ہیں تو ان پر کہانی بنائو، ہمارے یہاں آپ معاشرے میں دیکھیں گے بچوں نے انجیرنگ کی ہے کسی نے ڈاکٹری یا کچھ بھی کیا ہو محنت کی ہے تعلیم حاصل کی ڈگریاں حاصل کیں پر بیروزگار ہیں ان پہ بھی تو ایک بہت زبردست کہانی بن سکتی ہے یہ بھی تو زندگی میں ہو رہا ہے ان پہ کوئی کیوں کوئی ڈراما یا فلم نہیں بناتا ؟ آجکل ڈراموں میں بے حیائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھاتے پاکستان میں اس وقت جو طلاقوں کی سب سے زیادہ وجہ جو بنتی ہے میں سمجھتا ہوں وہ ڈراما سیریل ہے کیوں کہ ڈراموں کہ ذریعے ہماری نسلوں سے پیار ختم کرکے نفرتیں پیدا کر رہی ہیں وہ ہماری بچیوں اور خواتین میں آزادی کی باتیں ڈالتے ہیں کہ عورت کو آزادی ہونی چاہیے کچھ بہنیں سمجھدار ہوتی ہیں تو کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں ہیں جو پھر روڈ پر نکل آتی ہیں کہ ہمیں آزادی چاہیے میں تو وقت کے حکمرانوں اور گھر کے سربراہوں سے ایک گزارش کروں گا اگر آپ ریاست مدینہ چاھتے ہیں تو اپنی نسلوں کو ڈراموں سے نکال کر صحابہ کرام کی سیرت پڑھائیں صحابیات کے واقعات پڑھائیں پھر آپ ریاست مدینہ قائم کر سکتے ہیں ہر گھر کی زمہ داری اس گھر کے مرد کی ہوتی ہے نا کہ حکومت یا حکمرانوں کی تو بہرحال اپنی نسلوں میں اور انکی سانچوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ 

Leave a reply