پھر اس نے خط جیب میں رکھا اور کمرے سے نکل کر مختصر برآمدے سے ہوتا ہوا اپنے باپ کے کمرے میں گیا جہاں

اس کا مہینوں سے جانا نہیں ہوا تھا۔ وہاں جانے کی اسے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ کاروباری سلسلے میں روز ہی تو وہ

ملتے تھے اور کھانے کے وقفوں میں دوپہر کا کھانا بھی اکٹھے ہی کھاتے تھے۔ البتہ شام کو دونوں اپنے مرضی سے وقت

گزارنے میں آزاد تھے۔ جارج زیادہ تر دوستوں کے ساتھ باہر چلا جاتا یا جیسا کہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ وہ اپنی منگیتر سے

ملنے چلا جاتا بصورت دیگر دونوں باپ بیٹا کچھ وقت ساتھ گزارتے اوراپی مشترکہ بینک میں بیٹھ کر اخبار پڑھتے ۔

جارج کو حیرت ہوئی کہ ایسے روشن دن میں بھی اس کے باپ کا کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ کرہ تک مین کی

دوسری جانب اونچی دیوار کے سائے میں واقع ہونے کی وجہ سے سورج کی براہ راست روشنی سے محروم تھا۔ اس کا باپ

کھڑکی کے نزدیک ایک کونے میں بیٹا تھا جہاں اس کی مرحوم والدہ کی تصویریں اور تلف نشانیاں لگی ہوئی تھیں اور اخبار

کو پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں کے سامنے یوں ایک طرف کیے ہوئے تھا جیسے بھارت کے قص پر قابو پانے کی کوشش کر رہا

ہور میز پاس کے ناشتے کا، جس کا صاف معلوم ہوتا تھا کہ کم ہی حصہ کھایا گیا، باقی ماندہ حصہ پڑا تھا۔

اوہ جارج اس کے باپ نے فورا اپنی جگہ کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔ چلنے سے اس کا بھاری بھر کم شب خوابی کا

لباس کھل گیا اور پلواس کے جسم کے گرد پھڑ پھڑائے گئے۔

میرا باپ ابھی تک ایک جسیم انسان ہے۔ جارج نے خود سے کہا۔

وہ بولا ” یہاں نا قابل برداشت اندھیرا ہے ۔

ہاں، کافی اندھیرا ہے۔ اس کے باپ نے جواب دیا۔

آپ نے کھڑکیاں بھی بند کی ہوئی ہیں؟

ایسا ہی اچھا لگتا ہے۔

اخیر باہر کافی گری ہے۔ جارج نے کہا جیسے وہ اپنی پچھلی بات ہی کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہوں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔

اس کے باپ نے ناشتے کے برتن صاف کیے اور انھیں ایک الماری میں رکھ دیا۔

دور میں صرف آپ کو یہ اطلاع دینا چاہتا تھا کہ جارج اپنے باپ کی حرکات کا مشاہدہ کرتے ہوئے بولتا رہا، میں

سینٹ پیٹرز برگ خط لکھ کر اپنی منگنی کی خبریج رہا ہوں ۔ اس نے اپنی جیب میں سے خط پہلے مجھے باہر کیا لیکن پھر اسے

والیں اندر سید لیا۔

سینٹ پیٹرز برگ؟ اس کے باپ نے پوچھا۔

میرے دوست کو جارج نے اپنے باپ کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ

کاروباری معاملات میں مریض کتنا مختلف ہوتا ہے ۔ کیسے مضبوطی سے اپنے بازوں کو باندھے بیٹھتا ہے۔

۔

او ہاں، اپنے دوست کو اس کے باپ نے مجیب انداز میں زور دیتے ہوئے کہا ۔

اچھا، ای جان آپ تو جانتے ہیں کہ پہلے میں اسے اپنی نئی کے بارے میں بتانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ بس

اس کا سوچ کر ورنہ کوئی دوسری وجہ نہیں تھی۔ آپ خود جانتے ہیں کہ وہ ایک مشکل انسان ہے۔ میں نے خود سے سوچا کہ

اسے ضرور کسی نیکی ذریعے سے میری منگنی کے بارے میں پتہ چل جائے گا

، حالاں کہ اس کی خلوت گزینی کی زندگی میں

اس بات کا امکان بہت زیادہ نہیں ہے اور اسے میں روک بھی نہیں سکتا لیکن میں اسے خبر دینے پر تیارنہیں تھا۔

اور اب تم نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے۔ اس کے باپ نے پوچھا، اپنا بڑا اخبار کھڑکی کی دہلیز پر پھیلاتے ہوئے

جب کہ اس کے ہاتھ میں نظر کا چشمہ تھا جسے اس نے ایک ہاتھ سے ڈھانپا ہوا تھا۔

ہاں، اس بارے میں سوچتا رہا ہوں ۔ میں نے خود سے کہا کہ اگر وہ میرا چھا دوست ہے تو میری خوشی سے اسے بھی

خوشی ہوگی ۔ اس لیے اب مجھے اس کو اس بارے میں بتانے میں کوئی پچکچاہٹ نہیں ہے لیکن خط بھینے سے پہلے میں نے سوچا کہ آپ سے بات کرو۔

جارج اس کے باپ نے اپنا بغیر دانتوں کا منہ پورا کھولتے ہوئے کہا میری بات سنو تم اس معاملے پر مجھ

سے بات کرنے آئے ہو۔ بلا شبہ یہ تمھارے سعادت مندی ہے لیکن اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ بلکہ یہ پیش نہ ہونے کی

بہتر ہوتا تو مجھے پورا ن ت بتاتے ۔ میں ان باتوں کو نہیں پھیرنا چاہتا ہو اس موقع سے مناسب نہیں رکھتی ہیں تمھاری ماں

کی وفات کے بعد سے یہاں کچھ خاص قابل اعتراض باتیں ہوری ہیں۔ ایران پر بات کرنے کا ویتنے کا اور

شاید اس سے بھی جلدر جتنا ہمارا اندازہ ہے۔

کاروبار میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا مجھے علم نہیں ہو پاتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مجھ سے چھپائی جاتی ہوں ۔ میں یہ

نہیں کیہ رہا کہ نھیں جان بوجھ کر مجھ سے چھپایا جاتا ہے۔ میں پہلے ہمیں صحت مند نہیں رہا میری یادداشت کمز ور پوری

ہے۔ میں اب مزید بہت کی باتوں پر ایک ساتھ نظر نہیں رکھ پاتا۔ ایک تو یہ سب کچھ قدرتی عمل کا حصہ ہے اور دوسری بات

تمھاری ماں کی وفات تمھاری نسبت میرے لیے کہیں زیاد و پر ادا کی تھی لیکن چوں کہ ابھی ہم اس خط پر بات کر رہے

ہیں، جارج میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے دھوکہ مت دو۔ تو بہت معمولی بات ہے۔ اتنی بھی اہم نہیں ہے کہ اس کا

ذکر کیا جائے ۔ اس لیے مجھے دھوکہ مت دو۔ کیاوقتی سینٹ پیٹرز برگ میں تمھارا کوئی دوست ہے؟

جارج پریشانی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میرے دوستوں کی بات چھوڑیے۔ ہزاروں دوست بھی میرے لیے باپ کا

تبادل نہیں ہو سکتے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کیا سوچتا ہوں؟ آپ اچھے طریقے سے اپنا خیال نہیں رکر ہے۔ بڑھاپے

میں زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاروبار میں آپ کا ہونا میرے لیے ناگزیر ہے۔ آپ بھی یہ بات اچھی طرح

جانتے ہیں لیکن اگر کاروبار آپ کی صحت کے لیے منتر ثابت ہے تو میں اسے کل ہی ہمیشہ کے لیے بند کرنے پر تیار ہوں لیکن

اس سے کچھ نہیں ہوگا ہمیں آپ کی طرز زندگی میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی ۔ ایک بڑی تبدیلی ۔ آپ یہاں تاریکی میں بیٹے

رہے ہیں جب کہ بینک میں اچھی خامسی روتی ہے ۔ اپنی صحت کا رسک لیتے ہوئے آپ بہت کم پاشی کرتے ہیں ۔ بند

کھڑکی کے پاس بیٹھے رہتے ہیں ۔ اگر ہوا آتی رہے تو اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا ۔

( ابھی جاری ہے)

Shares: