‏دروازے کے دکھ . تحریر:عمرخان

چائے کا کپ ہاتھ میں لئے جب میں چھت پے بیٹھ کر غروب ہوتے سورج کو دیکھتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں وجہ یہ نہیں ہوتی کہ سورج کیوں غروب ہو رہا ہے وجہ یہ ہوتی ہے کہ کل جب نیا دن نکلے گا تو کیا وہ وہی اداسی لے کر آئے گا جو پہلے ہی لاکھوں لوگوں کے گھروں میں گھر کر چکی ہے ؟
میری بات کا شاید کوئی مطلب نہ سمجھ پایا ہو، تو چلو میں سمجھا دیتا ہوں.

ہم روز کئی حادثات دیکھتے ہیں اخبارات پڑھتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر بھی ہر روز نئی سے نئی خبر چل رہی ہوتی ہے کہ آج فلاں مر گیا.
کیا کبھی سوچا ہے کہ وہ دکھ وہ تکلیف جو دوسرے برداشت کر رہے ہوتے ہیں خدانحواستہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتی ہے, کیونکہ مرنا تو ہر کسی نے ہے.موت تو برحق ہے تو پھر کیوں نہ ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنی سمجھیں تاکہ معاشرے میں احساس باقی رہ سکے.
پہلے ادوار کے معاشرے اللہ اور رسول اللہ کے قوانین کے مطابق چلتے تھے .لیکن آج کل کا معاشرہ صرف سوشل میڈیا کے مطابق چلتا ہے.
پہلے قاضی اور انصاف نافذ کرنے والے ادارے اللہ سے ڈرتے تھے, لیکن آج کل کے قاضی اور انصاف نافذ کرنے والے ادارے سوشل میڈیا سے ڈرتے ہیں.

کچھ چیزیں ہمارے معاشرے میں بہت ناپید ہو چکی ہیں جیسا کہ احساس، برداشت، عزت, صبر، اتفاق اور اخترام اور بہت کچھ.
سوچتا ہوں معاشرہ کس ڈگر چل پڑا ہے ؟لوگوں نے جانا کہاں ہے ؟لوگوں کی منزل کہاں ہے ؟
تو جواب خاضر ہے قبر, ہاں قبر ہی ہم سب کی منزل ہے. اور موت ہی اس معاشرے کی حقیقت ہے.
اگر انسان بچ کر نکلنا بھی چاہے تو نہیں نکل سکتا کیونکہ یہی ہمارے دروازے کا دکھ ہے. اور اس دکھ سے کوئی نہیں بچ سکتا.
افسوس کہ آج چائے پھر ٹھنڈی ہو گئی اور سورج پھر پوری طاقت کے ساتھ غروب ہو گیا ,اور سورج نے پھر مجھے موت کے سامنے مات دے دی.

‎@U4_Umer_

Comments are closed.