دعوت فکر ہے یاران نکتہ دان کے لیے

0
83

سلام،سفیر سری لنکا۔۔۔جنرل(ر)سعد خٹک
(تحریر،علی عمران شاہین)
……..
سری لنکا میں مسلم خواتین کے نقاب لینے پر پابندی کی خبریں سامنے آنے کے بعد مسلم دنیا نے حسب روایت اسی بے حسی بلکہ بہرے اندھے گونگے پن کا مظاہرہ کیا جیسا وہ طویل عرصے سے امت کے ہر چھوٹے بڑے دکھ درد پر کرتی آئی ہے۔ لیکن اسی دوران جب سری لنکن حکومت صاف کہہ چکی تھی کہ مسلم خواتین کے نقاب اور مسلم مدارس پر پابندی کا فیصلہ ہو چکا ہےاور اسے فقط پارلیمان سے روایتی منظوری کی ضرورت ہے،دنیائے اسلام سے پہلی اور واحد آواز سری لنکا میں متعین پاکستانی سفیر میجر جنرل(ر)سعد خٹک کی سنائی دی جنہوں نے سری لنکن حکومت کو اس فیصلے پر آڑے ہاتھوں لے لیا۔انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیااور سری لنکن حکومت کوویڈ 19کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر رہی ہے مقامی حکومت کا عام مسلمانوں پر دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر نقاب پر پابندیاں لگانا یہاں اور دنیا بھر کے اہل اسلام کے لئے تکلیف کا باعث اور مسلم اقلیت کے بنیادی انسانی حقوق چھیننے کے مترادف ہوگا۔اس سے دنیا میں انسانوں کی باہم نفرت اور تقسیم میں اضافہ ہوگا۔۔۔۔۔(انہوں نے ساتھ ہی سری لنکا کی مسلم خواتین کے پردے پر پابندی لگانے کے حوالے سے بی بی سی کی شائع کردہ خبر بھی شئیر کی)
ٹوٹر پر بیان جاری کرنے کے بعد دوسرے دن پاکستانی سفیر نے سری لنکا کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور ان کے سامنے بھی یہ معاملہ اٹھایا اور ان کو بتایا کہ سری لنکن حکومت کی اس طرح کی پالیسیوں سے پاکستانی عوام میں بھی اضطراب پایا جاتا ہے اور پوری دنیا کے مسلمان اس عمل کی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔
سعد خٹک کی سری لنکن وزیر خارجہ سے ملاقات کے تھوڑی دیر بعد ہی سری لنکا کی حکومت کی جانب سے حیران کن بیان جاری ہوا جس میں ایک سینئر سری لنکن وزیر اور وفاقی کابینہ کے ترجمان کہیلیا رمبوک ویلا نے کہا کہ سری لنکا کی حکومت کو مسلم خواتین کے پردے پر پابندی عائد کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور یہ کہ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ مکمل اتفاق رائے اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کیاجائے گا اور تمام فریقوں کو اس پر اعتماد میں لیا جائے گاـ
اس موقع پر یہ بھی بتایا گیا کہ لنکن حکومت کے ہفتہ وار مشاورتی اجلاس میں یہ معاملہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں آیا۔
یاد رہے کہ سری لنکا کے وزیر برائے عوامی تحفظ سارتھ ویرا سیکرا نے 13 مارچ کو اخباری نمائندوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے کابینہ کے ایک حکم پر دستخط کر دیئے ہیں جس کی رو سے سری لنکا میں برقعہ پر مستقل پابندی عائد کر دی جائے گی جبکہ 1000 کے قریب مسلم مدارس بھی بند کر دئیے جائیں گے ۔ کابینہ کا یہ حکم پارلیمان میں پیش کیا جائے گا اور رسمی کارروائی کے بعد یہ پابندی عائد کر دی جائے گی۔ مسلم ممالک کی نمائندہ سمجھی جانے والی تنظیم او آئی کے رکن
57 ممالک میں سے پاکستان کے سفیر وہ پہلے اور واحد عہدے دار تھے جنہوں نے سری لنکا کی مسلمان ماؤں بہنوں کی عصمت اور عزت کے لئے آواز بلند کی اور اس پر شاندار کامیابی حاصل کی یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس سے پہلے میجر جنرل(ر)سعد خٹک کی کوششوں سے ہی سری لنکا میں کرونا سے فوت ہونے والے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تدفین کی اجازت ملی ورنہ سری لنکن حکومت نے مسلمانوں کو بھی ان کی میتیں جلوانے پر مجبور کر رکھا تھا اور یہ کام حکومت خود اپنی نگرانی میں کرتی تھی اور مسلمانوں کی میتیں بھی ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی تھیں۔اس ضمن میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہےکہ جب حال ہی پاکستانی وزیراعظم عمران خان سری لنکا کے دورے پر گئے تو وہاں کی حکومت نے مسلم پارلیمنٹرینز کو عمران خان سے ملوانے سے صاف انکار کر دیا تھا لیکن جنرل(ر)سعد خٹک نے ایک بار پھر جراتمندانہ کردار ادا کیا اور اپنے طور پر نہ صرف مسلم پارلیمنٹرینز کی عمران خان سے ملاقات کرائی بلکہ سری لنکا کے قائد حزب اختلاف کو بھی عمران خان سے ملوایا اور عمران خان کے دورے کے خلاف بعض حلقوں کی جانب سے جاری تنقید کو خاموش کرا دیا۔
سری لنکا کی حکومت کی جانب سے یہ اقدام دو سال قبل ملک میں ایسٹر سنڈے پر گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر ہونے والے متعدد منظم حملوں کے بعد کیا جا رہاتھا جب اپریل 2019 میں خودکش حملہ آوروں نے متعدد مقامات پر حملے کیے جن میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
اس وقت جب حکام نے حملہ آوروں کا سراغ لگانے کی کوشش کی تھی تو عارضی طور پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اب حکومت اس پابندی کو مستقل کرنے جا رہی تھی۔
سری لنکا میں مسلم خواتین کے برقعے پر پابندی کے خلاف سوشل میڈیا پر کھل کر آواز بلند کر کے جنرل سعد نے بجا طور پر پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جس پر وہ خراج تحسین کے لائق ہیں۔ہم تو اس موقع پر اللہ سے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ پاکستان کو ہر جگہ ایسے ہی سفیر میسر آئیں جو دینی و ملی معاملات پر ایسے ہی مسلم امہ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرنے والے ہوں۔۔۔۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جنرل ر سعد خٹک نے چند ماہ کی قبل ملنے والی اس ذمہ داری میں جتنا بڑے معرکے سر کئے ہیں دو ارب کے لگ بھگ مسلمان اس کا آج تک سوچ ہی سکتے تھے اور کسی میں اتنی حمیت و غیرت نہیں دکھائی دی کہ وہ گنگ زبان کو جنبش ہی دےدیتا۔ اگر آج چار دانگ عالم میں صرف اور صرف مسلمان ہی ہر طرح کے ظلم و تعدی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ ان کا یہی مردہ لاشیں بن جانا اور محض یہ سوچ کر وقت گزارنا کہ میں تو محفوظ ہوں کے علاوہ کچھ اور نہیں۔یہ امہ یہ بھی نہیں سوچتی کہ اگر ان کے ملکوں میں کسی کافر کو اس کی اپنی غلطی سے اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کا ذمہ دار بھی انہیں گردان کر ہر طرف سے عالمی سطح پر ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا جاتا ہےاور عالمی طاقتیں اور ان کے گماشتہ ادارے مسلم ملکوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔اس کھلی ناانصافی اور دوعملی پر بھی اس امت کی آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لیتں اور یوں ان کی حیثیت برائلر مرغیوں جیسی ہوچکی ہے جو باری باری کٹتی جاتی ہیں اور کسی کو یہ نظر نہیں آتا کہ جو ہاتھ باربار پنجرے میں آتا ہے وہ سب کو دبوچ دبوچکر ذبح کرتا جارہا ہے اور بچ جانے والی آخری مرغی بھی چھری پھرنے تک بے فکر دانا چگ رہی ہوتی ہے۔۔۔۔
اس سب کے ساتھ حیران کن مذموم کردار ہمارے اس پاکستانی میڈیا کابھی ہے جس نے اپنے ملک کے ایک سفیر کے اتنے بڑے کارنامے کو کسی سطح پرم معمولی جگہ دینا گوارہ نہ کیا جبکہ بھارتی میڈیا اس کی کوریج کررہا ہے کہ پاکستانی سفیر کے ردعمل کی وجہ سے سری لنکن حکومت اپنا طے شدہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوئی ہے۔
دعوت فکر ہے یاران نکتہ دان کے لئے

Leave a reply