ڈپریشن تحریر : اقصٰی صدیق 

0
75

 

ڈپریشن کے لفظی معنی پچکاؤ، دبی ہوئی جگہ، بددلی، افسردگی اور ذہنی اضمحلال وغیرہ میں ملتے ہیں۔

 لیکن عام زندگی میں یہ لفظ عموماً اس وقت استعمال ہوتے ہیں جب کوئی فرد اپنے موڈ میں بہت زیادہ گراوٹ یا خود کو قابل رحم محسوس کرتا ہے۔ تاہم معالجین اس موڈ میں گراوٹ کی علامت بیان کرنے یا کسی مخصوص بیماری کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

 لیکن اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کسی دکھ پر فطری طور پر غمزدہ ہونے والی اور بیماری والی آزردگی میں فرق کرنا پڑے۔ 

دنیا بھر میں ہر سال 10 اکتوبر کو دماغی صحت کے حوالے سے خصوصی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے ہے کہ عوام الناس کو کو ذہنی و دماغی امراض سے متعلق ضروری معلومات پہنچائی جائیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 350 ملین سے زائد افراد جن میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں جو کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بستے ہیں ڈپریشن کی شدید کیفیت کا شکار ہیں۔

 یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ڈپریشن جیسے عارضے کو مرض نہیں سمجھا جاتا بلکہ مریض اس عارضے کے ساتھ ہی اپنی گزر اوقات کرتا رہتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریبا 15 فیصد سے زائد افراد ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ تین فیصد سے زیادہ شیزوفرینیا کا شکار ہیں۔

جبکہ چھ فیصد سے زائد افراد بدسلوکی اور 1 سے 2 فیصد افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اور عموماً خودکشی کے واقعات میں اضافہ کی ذمہ داری معاشرتی برائیوں کے علاوہ ان بیماریوں پر بھی ہے، اس ضمن میں ڈپریشن اور اس سے پیدا ہونے والی دوسری بیماریاں اور پیچیدگی اول نمبر پر ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے ہے کہ دنیا کی زندگی میں ہر انسان رنج و غم، مصبیت وتکلیف، آفت و ناکامی اور نقصان سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

 البتہ دانشمند اور کم عقل کے انداز فکر اور طرز عمل میں ایسے مواقع پر ایک نمایاں فرق ہوتا ہے۔

کم عقل رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہوکر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، اور مایوسی کا شکار ہو کر ہاتھ پیر چھوڑ دیتا ہے۔ اور بعض اوقات تو غم کی تاب نہ لا کر خودکشی بھی کر لیتا ہے۔

 اس کے مقابلے میں دانشمند کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا تقدیر الٰہی کے مطابق ہوا، اور اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام اور حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا، یقینا اس میں بھی میرے لیے کوئی خیر اور بہتری کا پہلو ہوگا۔

عقل مند کا یہ عقیدہ اسے ایسا روحانی سکون و اطمینان بخشتا ہے، جس سے ہر مشکل آسان لگنے لگتی ہے اور بڑے سے بڑے سانحے کو بھی مقدر کا فیصلہ سمجھتے ہوئے اپنے غم کا علاج پالیتا ہے اور پریشان نہیں ہوتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ” مومن کا معاملہ بھی خوب ہے وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر ہی سمیٹتا ہے، اگر وہ دکھ بیماری اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو اُسے سکون اور صبر کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔اور یہ آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے، اور اگر اس کو کو خوشی و خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوشحالی اس کے لیے خیر کا سبب بنتی ہے۔(صحیح مسلم) 

جدید تحقیق کے مطابق بے خوابی کی پُرانی شکایت ذہنی پستی کی علامت قرار دی جا سکتی ہے،

 حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے ہے کہ اچھی نیند سونے والوں کے مقابلے میں نیند اچاٹ ہونے والوں کے ڈپریشن یا پستی کا شکار ہونے کے امکانات 6 گناہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس مرض سے متاثرہ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو بظاہر خوب سوتے ہیں لیکن اس کے باوجود آرام کے احساس سے محروم ہوتے ہیں بعض افراد کو بھوک پیاس نہیں لگتی جس کی وجہ سے وہ روز بروز کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کے مریض توانائی سے محروم ہو کر کرسی یا بستر سے اٹھنے سے بھی مجبور ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔

اور ڈپریشن کا شکار مریض کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں پریشانی کا سبب بنتا ہے۔وہ اپنے آپ کو ناکارہ تصور کرنے لگتا ہے، اور زندگی اس کے لیے ایک بے مقصد شے بن کر رہ جاتی ہے۔

پستی کے عارضے سے متعلق یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس مرض سے متاثرہ افراد خود کو عموماً لاعلاج تصور کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے علاج کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔

جس کی وجہ سے وہ روز بروز اس مرض کی گہرائیوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں، ایسے افراد کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ اور ایسے واقعات کو یاد کرنا چاہیے جو ان کے لیے مشعل راہ ہوں۔کیوں کہ بے شمار کام لوگوں کے پیچھے بھی کئی ناکامیاں چھپی ہوئی ہیں۔

ڈپریشن یا پستی کی کیفیت بالعموم دو قسم کی ہوتی ہے۔ ماہرین کی بیان کردہ یہ دو اقسام کچھ اس طرح ہیں۔

حیاتیاتی پستی: حیاتیاتی پستی کراچی جسم میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کے ثواب ہوتی ہے یہ کیفیت بعض اوقات نفسیاتی عوامل کا نتیجہ ہوتی ہے ہے اس لئے اس کا علاج بالعموم پستی رفع کرنے والی ادویات سے کیا جاتا ہے طور پر استعمال سے یہ کیفیت دور ہو جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس قسم کی پستی کے مریضوں کے علاج میں سب سے بڑی دقت یہ ہوتی ہے۔ کہ اس کے مریض دافع پستی ادویہ کے استعمال کے لیے آمادہ نہیں ہوتے، وہ خود کو صحت مند خیال کرکے اس مرض کا مکمل طور پر علاج نہیں کرا پاتے۔

نفسیاتی پستی: یہ بیرونی اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ دراصل کسی غم اور دُکھ کی بڑھی ہوئی صورت ہوتی ہے بعض اوقات یہ غم اور دُکھ اس قدر نازک ہوتا ہے، کہ اس کی نشاندہی مشکل ہوتی ہے۔بعض اوقات عمر میں تبدیلی بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔ جیسے بچپن اور جوانی کے رخصت ہونے پر بعض لوگ شدید پستی کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں پر یہ کیفیت محبت میں ناکامی کے باعث پیدا ہوجاتی ہے۔

بعض اوقات فوری طور پر کس معزوری کے طور پر بھی نفسیاتی پستی لاحق ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جیسے کہ پستی کے مریضوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جنہیں "مسکراتے مریض” کہا جاتا ہے۔

 یہ مریض اپنے غم کو اپنے اندر دبائے رکھتے ہیں اور اوپر سے خوش باش نظر آتے ہیں۔ ایسے مریض اپنے آپ کو بہت مشکل سے مریض مانتے ہیں، بعض اوقات ماحول اور حالات بھی لوگوں کو پستی میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں، جبکہ کچھ لوگوں میں یہ کیفیت موروثی بھی پائی جاتی ہیں۔

یاد رہے کہ پستی کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا علاج نہ کیا جا سکے۔ اس مسئلہ کو مناسب علاج معالجے کے ساتھ ساتھ مضبوط قوت ارادی کی بدولت مات دی جاسکتی۔ پستی کا شکار افراد جب اپنی پستی کو دور کرنے یا کم کرنے کے لیے شراب یا دیگر نشہ آور اشیاء کا سہارا لیتے ہیں تو وہ نہ صرف اس مرض کو بڑھانے کا موجب بنتے ہیں بلکہ دیگر کئی خطرناک امراض جیسے کہ دل کا دورہ وغیرہ کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔

دماغی اور نفسیاتی بیماریوں میں تشویش ناک حد تک اضافے کی وجوہات غربت، بے روزگاری سیاسی عدم استحکام، تشدد اور دیگر سماجی برائیاں ہیں۔ کچھ خرابیاں پیدائشی بھی ہوتی ہیں، جب کہ کچھ انسان کے جسمانی نظام میں موجود ہوتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطالعاتی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام نفسیاتی امراض میں ڈپریشن سرفہرست ہے۔ اس کے بعد ڈپریشن سے متعلق شدید ذہنی امراض شیزوفرینیا، بےچینی، فکر یا تشویش اور جسمانی نظام سے پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماریاں، بدسلوکی اور اذیت رسانی وغیرہ شامل ہیں۔

یاد رہے کہ درج ذیل کیفیات میں مبتلا افراد زیادہ تر ڈپریشن کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

 بہت زیادہ غمگین رہنے والے افراد، باطن پسند افراد، خود تنقیدی افراد، کوتاہی کرنے کی طویل و گہری سوچ رکھنے والے افراد، بہت زیادہ تنقید کرنے والے اور گہری پریشانیوں میں رہنے والے افراد، اور اضطراری کیفیت کے شکار افراد وغیرہ۔

لہذا میں یہی کہنا چاہوں گی کہ” نفسیاتی مریض ” کہلوانے سے نہیں بلکہ ہونے سے ڈریں، ہر قسم کا ذہنی اضمحلال قابلِ علاج ہے۔

@_aqsasiddique

Leave a reply