دھوکہ منڈی ڈاٹ کام تحریر ؛ علی خان

0
32

ڈبا تو آرڈر کردہ کواڈ کاپٹر یعنی ڈرون کا ہی تھا لیکن  اس کے اندر  کاغذ بھرے ہوئے تھے ۔ منظر تھا سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو کا جس میں گلگت سے تعلق  رکھنے والے تین بچے پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن شاپنگ سائٹ سے منگوائے جانے والے ڈرون کی "ان باکسنگ "کررہے تھے ۔  بچوں نے ویڈیو شروع تو جوش اور ولولے سے کی لیکن اختتام پر خالی ڈبہ دیکھ انکے منہ اتر  سے گئے۔ ننھے ولاگر کے الفاظ  "فراڈ ہے یہ سب” اس المیے کی نشاندہی کررہے تھے جو ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہی وجود میں آیا تھا۔ آن لائن فراڈ کا یہ کیس کس طرح اختتام پذیر ہوا اور ویڈیو وائرل ہونے پر کمپنی کی جانب سے  بچوں کو تحفے  دے کر کیسے اپنے ساکھ بہتر کرنے کی کوشش کی گئی وہ ایک علیحدہ قصہ ہے

یہ تو حال ہے پاکستان کی سب سے بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنی کی ملکیت سائٹ کا جہاں داد رسی کا کچھ موقع موجود ہوتا ہے۔ دوسری جانب  کسی بھی آن لائن  اسٹور ، ویب سائٹ یا  اپیلی کیشن سے خریدی کسی چیز میں کوئی خرابی نکل آئے ، وہ چیز جعلی نکل آئے یا پھر ڈبا خالی ہی نکل آئے تو پھر صبر کرنا ہی واحد حل رہتا ہے۔ دنیا بھر میں آن لائن  شاپنگ کی ویب سائٹس اور اسٹوروں پر کڑے قوائد و ضوابط لاگو ہوتے ہیں۔ ٹیکس نظام سے منسلک ہونے کے باعث خرید و فروخت کا ریکارڈ  قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس بھی ہوتا ہےلیکن وطن عزیز میں تو پھر "سب چلتا ہے”

سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور ایلیکشنز  مصنوعات کے اشتہارات سے بھری ہوتی ہیں۔ یہاں کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، اشیائے ضروریہ، اشیائےتعیش،  الیکترک سے الیکٹرانک اور سکیورٹی سے سجاوٹ تک ہر قسم کی مصنوعات ملتی ہیں۔ ان کے درمیان ہی فراڈ کرنے والے افراد موجود ہوتے ہیں۔ ایسی فراڈ ویب سائٹس  اور ویب پیجز کا نام اور ڈیزائن معروف سائٹس اور پیجز سے مشابہ رکھا جاتا ہے۔اصل مصنوعات کی تصاویر ایڈٹ کرکے لگائی جاتی ہیں تو صارف دھوکا کھا جاتاہے ۔ دیدہ زیب ڈیزائن والی گھڑی صارف تک پہنچنے پر  50 روپے درجن والی نکلتی ہے۔  خوبصورت شرٹ لنڈے کا مال نکلتی ہے اور چمڑے کا بیلٹ گھٹیا پلاسٹک کا پٹا ہوتا ہے

یہ فراڈ اور دو نمبری کا سلسلہ یہیں نہیں رکھتا بلکہ زیادہ کمائی کے لالچ میں  ایسے فراڈئیے بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی یہ دھندا شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور  ملک و قوم کے نام کو بٹا لگاتے ہیں۔ انہی وجوہات کے بنا پر بہت سی آن لائن ادائیگی کی کمپنیاں آج بھی پاکستان کا رخ کرنے سے کتراتی ہیں۔ اس سب فراڈ میں کچھ سہولت کورئیر کمپنیاں بھی فراہم کرتی ہیں جو بغیر اتے پتے کے مشکوک پیکٹ صارف تک پہنچاتی ہیں اور کیش آن ڈیلیوری کرنے والا صارف بعد میں سر پیٹنے کے سوا کچھ نہیں کرپاتا۔  ایسے فراڈ عموماً سیکڑوں  اور ہزاروں میں کیے جاتے ہیں تاکہ صارف قابل برداشت   ہونے کے باعث نقصان پر صبر کرلے اور قانونی چارہ جوئی نہ کرے۔ اگر کوئی کوشش کربھی لے تو رقم کم ہونے کے باعث قانون نافذ کرنے والے ادارے ذمہ دار تک پہنچنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے

اس میں کوئی شک نہیں کہ آن لائن کاروبار سے کرونا میں  معیشت کا پہیا رواں رکھنے میں مدد ملی ہے اور   مصروف افراد کو بازار جانے کی زحمت سے چھٹکارا ملا ہے۔ خواتین گھر بیٹھے ہر چیز آرڈر پر منگوا سکتی ہیں  اور  بہت سی  مشکلات سے بچ جاتی ہیں۔  لیکن یہ سب سہولیات اور آسانیاں حاصل کرنے میں آن لائن فراڈئیے  بڑی رکاوٹ ہیں ۔ اس کے سدباب میں صارف تنظیموں کو بیدار ی مہم شروع کرنے  کی ضرورت ہےتاکہ ہر آن لائن کاروبار کی رجسٹریشن اور کا سلسلہ شروع ہوسکے۔ صارفین بھی خریداری کرتے وقت کم قیمت یا  پرکشش فیچرز کے جھانسے میں نہ آئیں اور ویب سائٹ یا سیلر کے اصلی ہونے کی تسلی کرنے کے بعد ہی آرڈر کریں۔  فراڈ ہونے کی صورت میں فراڈ کرنے والےشخص کا نہ صرف اکاونٹ بند کروایا جائے بلکہ سزا  اور جرمانہ بھی ہونا چاہیے۔ رقم کم ہو یا زیادہ،  فراڈ کو فراڈ ہی سمجھا جائے تاکہ ایسے عناصر کا سدباب ہو اور صارفین مکمل اعتماد کے ساتھ ٹیکنالوجی کی نعمت کافائدہ اٹھا سکیں

 

@hidesidewithak

Leave a reply