ڈھونڈ گے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں تحریر۔ نعیم الزمان ہم۔

0
38

جو یاد آئے بھول کر پھر اےہم نفسو وہ خواب ہیں ہم۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان خان 1936ء کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ 1952ء  میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے ۔ کراچی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی۔ پھر جرمنی اور ہالینڈ سے  اعلی تعلیم حاصل کی ۔ 1970ء میں ہالینڈ سے میٹالرجی میں ماسٹر کیا ۔ اور 1972ء میں بیلجیئم سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔  اس کے بعد وطن واپس لوٹے۔ 1974ء میں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکوں کے تجربات کیے۔ اس کے بعد آپ نے 1976 ء میں پاکستان انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا۔بعد میں اس ادارے کا نام صدر پاکستان ضیاءالحق نے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھا۔ یہ وہ ادارہ ہے جو پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتاہے۔ صرف آٹھ سال کی قلیل مدت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی محنت اور لگن کے ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کر کے دنیا کے تمام نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو حیرت میں مبتلا کیا۔  28 مئی 1998 ء میں پاکستان نے کامیابی سے ایٹمی دھماکے کا تجربہ کیا ۔جس کی نگرانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کر رہے تھے ۔یہ سب آپ کی  اور آپ کی ایٹمی ٹیم کی محنت اور جذبہ حب وطنی کی بدولت ممکن ہوا۔ الحمدللہ پاکستان دنیا کا پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنا ۔آپ نے 2000ء میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو وطن عزیز کیلئے شاندار خدمات سرانجام دینے پر محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کی پہلی شخصیت ہیں جنہیں تین صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہیں ان خدمات پر دو بار نشان امتیاز اور ایک بار ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔ سنہ 2003 میں اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ادارے نے پاکستان  گورنمنٹ کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ پاکستانی جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے جوہری راز فروخت کیےہیں۔ بعدازاں ٹی وی پروگرام میں آ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے جرم کا اعتراف کیا جس کے بعد  انہیں اسلام آباد  میں ان کے گھر نظر بند کر دیا گیا ۔2009 ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی نظر بندی کو ختم کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے انہیں ایک آزاد شہری کی طرح زندگی گزارنے کے احکامات جاری کیے۔ مگر وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں احکام کو مطلع کرنے کے پابند تھے۔ بغیر مطلع کیے کہیں آنا جانا ممکن نہیں تھا۔ 2020ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں ان کا موقف تھا کہ میری نقل و حرکت کو محدود کیا گیا ہے مجھ سے ملاقات کے لیے آنے والوں کو ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تعلیمی اداروں میں نہیں جانے دیا جاتا ۔مجھے تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دی جائے تا کہ میں سٹوڈنٹ کو کچھ لیکچر دیے سکوں۔ درخواست میں مزید یہ بھی کہا گیاتھا کہ جب میں نیوکلیئر پروگرام اور ایٹم بم بنانے میں مصروف تھا اس وقت تو  میرے ساتھ گارڈ نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی بندوقیں نہ فوجی اور نہ ہی رینجرز ۔ اب 84 سال کا عمر رسیدہ ہو چکا ہوں۔ چلنا پھرنا مشکل ہے ۔ میں اپنے ہی ملک میں موجود ہوں اور باہر جانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں رکھتا۔ میں اپنے ملک سے غداری نہیں کروں گا ۔ایک عام آدمی کی طرح بقیہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ جس پر عدالت کے ریمارکس تھے کہ ان حالات میں آپ کی زندگی کو خطرہ سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں جو آپ کے لیے لیے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں مگر غیر محفوظ نہیں ۔نظر بندی کے باعث ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان گزشتہ کئی سالوں سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ خاندانی ذرائع کے مطابق کچھ ہفتے پہلے ڈاکٹر صاحب کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ اور ہسپتال میں زیر علاج رہے۔  ڈاکٹر عبد القدیر خان کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات فراہم کی گئی۔ بعد میں طبیعت بہتر ہونے پر کرونا سے ریکوری پر آپ کو واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ 9 اکتوبر کی شب کو ڈاکٹر صاحب کی اچانک طبیعت خراب ہوئی۔ جس کے بعد انہیں ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ 10 اکتوبر کی صبح سات بجے کے قریب پاکستان ایٹمی پروگرام کے خالق اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ محب وطن پاکستانی اور محسن پاکستان کا سنہرا باب ہمیشہ کے لئے لیے بند ہو گیا۔ آپ کی خدمات کو رہتے پاکستان تک یاد رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اس قوم اور ملک پر جتنا بڑا احسان تھا اقتدار میں رہنے والوں نے انہیں اتنا ہی نظر انداز کیا۔ درویش صفت انسان اپنی کسم پرسی اور تکالیف چھپائے رخصت ہو گئے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی رخلت کا سن کر کر پوری قوم غمزدہ ہے ۔ہر آنکھ اشک بار ہے۔ آپ نےانتھک محنت اور لگن کے جذبے سے سر شار ہوکر ہماری دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔ ڈاکٹر صاحب ہم شرمندہ ہیں یہ ریاست آپ کا خیال نہ رکھ سکی جو عزت آپ کو دینی چاہیے تھی وہ نہ دے سکی۔ اللہ ہمیں قوم کے محسنوں کی قدر سکھائے ۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین

ہم بھی چلے ہیں سوئے کارواں 

آنے والوں کو ہمارا سلام کہنا۔

Follow on Twitter

@786Rajanaeem

Leave a reply