دل اب بھی تری آرزو کرتا ہے مسلسل

0
35
alnisa

دل اب بھی تری آرزو کرتا ہے مسلسل
دل اب بھی میرا یاد پرانی سے جڑا ہے

زیب النساء زیبی

تاریخ ولادت:03 جولا‎ئی 1958ء
رہائش: گلشن اقبال کراچی پاکستان
مادر علمی:وفاقی جامعۂ اردو
جامعہ کراچی
تعلیمی اسناد:ایم اے سیاسیات
ایم اے اجتماعی ابلاغیات
ادبی حیثیت :شاعرہ، افسانہ نگار

زبان:اردو

زیب النساء زیبی صاحبہ ایک نامور پاکستانی شاعرہ، افسانہ نگار، کالم نگار، مترجم اور ماہر تعلیم ہیں۔ اب تک 60 ادبی تخلیق اور 25 نصابی کتابیں تالیف اور ترجمہ کر چکی ہیں۔ شعری صنف سوالنے متعارف کرائی ہے، جب کہ تروینی میں اردو زبان کا پہلا مجموعہ شائع کیا ہے۔ اب تک تین کلیات شائع ہو چکی ہیں جن میں غزلیات کی کار دوام، ستر شعری اصناف پر مشتمل 23 مجموعے سخن تمام کے عنوان سے اور افسانوں، ناولٹوں اور ناول پر مشتمل عکس زندگی شامل ہیں۔ جب کہ ایک کلیات تحقیق و تنفید، ادبی مضامین اور کالموں کی زیر ترتیب ہے۔
ذاتی زندگی
۔۔۔۔۔۔۔
زیب النساء کراچی میں اقبال بیگ اور زہرا خاتون کے ہاں 3 جولائی 1958ء کو پیدا ہوئیں، ان کے دیگر بہن بھائیوں میں 4 بھائی اور 3 بہنیں شامل ہیں۔ ایم اے صحافت، ایم اے سیاسیات کی سند جامعہ کراچی سے حاصل کی۔ محکمہ اطلاعات، حکومت سندھ میں افسر اطلاعات کے عہدے پر خدمات سر انجام دیتی رہی ہیں۔ زیب النساء کی شادی محمد اقبال شیخ (سابق سرکاری افسر) سے ہوئی، ان کی اولاد میں دو بیٹیاں عنبرین افشاں اور سحرین درخشاں ہیں۔
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)سخن تمام، (کلیات)
اس میں ستر اصناف سخن پر شاعری کے 23 مجموعے شامل ہیں۔
۔ (2)کارِ دوام، کراچی، زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، 2014ء، 1744 ص (غزلیات)
اس میں غزلیات کے اکیس مجموعے شامل ہیں۔
۔ (3)عکسِ زندگی، ،کراچی،زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، 2014ء، 1040 ص (کلیات)
اس میں افسانوں کے اٹھارہ مجموعے،سات ناولٹ اور ایک ناول شامل ہے۔
حمد و نعت
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)حرف حرف بندگی (مجموعہ نعت)
۔ (2)بھیگی بھیگی پلکیں (مجموعہ نعت)
بچوں کا ادب
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)چاند ستارے آسمان
۔ (2)پھول کلیاں خوشبو
۔ (3)کہکشاں در کہکشاں
فکاہیہ شاعری
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)یہ عالم شوق کا
۔ (3)ایسی تیسی
۔ (4)یہ کہانی اور ہے
سہ مصرعی نظمیں
۔۔۔۔۔۔۔
تنہا تنہا چاند
ہائیکو
۔۔۔۔۔
۔ (1)مجھے کچھ کہنا ہے
۔ (2)کبھی تو ملیں گے
سوالنے
۔۔۔۔۔
آتی رت کا پھول (ذاتی اختراع)
تروینی
۔۔۔۔۔
تیرا انتظار ہے (اردو میں دوسرا اور کسی شاعرہ کا پہلا مجموعہ تروینی)
قطعات
۔۔۔۔۔
۔ (1)سحر درخشاں
۔ (2)عنبر وافشاں
رباعیات اور دوہے
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)یاد کے موسق
۔ (2)مسمط
۔ (3)تم سے دور تو نہیں (مثلث، مربع، مخمس، مسبح، مثمن، متسح، معثر، مسمط، تربیج بند، ترکیب بند میں)
۔ (4)ہتھیلی پر گلاب (چہار بیت، کہہ مکرنی، لوری، کافی، ڈھولا، گیکت، پہلی، ہیر، خماسی، پنجگانہ، سداسی، ملی نغمہ، قوالی، سہرا رخصتی یا مصری تکونی، ترائیلے)
ناولٹ
۔۔۔۔۔
۔ (1)خاموش جنازے
۔ (2)جہنم کے فرشتے
۔ (3) دلدل
۔ (4)کالی زبان
۔ (5)شہزادے کا انتظار
۔ (6)سیر عدم کی
۔ (7)اوروہ ہے اور ہم ہیں دوستو
ناول
۔۔۔۔۔
آدھی گواہی

تاثرات
۔۔۔۔۔
رئیس امروہوی
۔۔۔۔۔
زیب النساء زیبی کو قدرت نے فیاضی کے ساتھ فہم و ادراک اور مشاہدات کی قوت سے شناسا کیا ہے۔
عصمت چغتائی
۔۔۔۔۔۔
زیب النساء زیبی اور ان کی ذہانت و تخلیقی کارکردگی پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے ادب ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔
ڈاکٹر وزیر آغا
۔۔۔۔۔۔
زیب النساء زیبی نے اپنی تحریروں میں زندگی کے تلخ حقائق کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے موضوعات میں بہت تنوع ہے اور ان کا فکر و خیال میں بلا کی برق رفتاری ہے۔
فیض احمد فیض
۔۔۔۔۔۔۔
زیبی انقلابی جوش و جذبے سے پر ایک حقیقت پسند دردمند دل رکھنے والی تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریرون میں مظلوموں اور نسائیت کے مسائل کو بہت جرات سے بے نقاب کیا۔

غزل
۔۔۔۔۔
: محبت کا جہاں میں گر محبت ہی صلہ ہوتا
نہ آنکھوں سے کسی کی درد کا آنسو گرا ہوتا
یہ تیری دلنشیں دنیا بھی جنت کی طرح ہوتی
سرشت آدمی کو بس نہ اتنا شر دیا ہوتا
– جہنم پیٹ کا رکھا ہے تونے ساتھ انساں کے
سمندر خواہشوں کا جسم کو کچھ کم دیا ہوتا
ملا کیا اس کو سچائی کے رستےپر قدم رکھ کر
کہ ایسی نیک نامی کا یہاں کچھ تو صلہ ہوتا
جو اتنے امتحاں لینے تھے ہر انسان سے تونے
تو ہر انسان کو تونے پیمبر ہی کیا ہوتا
دہے ہیں نا تواں زیبی کو اتنے درد و غم تونے
دیا اک آس کا دل میں جلا کر رکھ دیا ہوتا

غزل
۔۔۔۔۔
کردار ہے اور اپنی کہانی سے جڑا ہے
انسان تو بس عالم ِ فانی سے جڑا ہے
میں کیسے کہوں پیاس سے مرتے نہیں پنچھی
یہ سانس کا رشتہ بھی تو پانی سے جڑا ہے
دل ا ب بھی تیری آرزو کرتا ہے مسلسل
دل اب بھی میرا یاد پرانی سے جڑا ہے
ہر شخص ہی دنیا سے چلا جائے گا اک دن
ہر شخص ہی جب نقل مکانی سے جڑا ہے
اس غم کو بھی اب دل میں جگہ دینی پڑے گی
یہ غم بھی مرے ساتھ جوانی سے جڑا ہے
یہ درد میری جان کا دشمن بنا زیبی
اس درد کا رشتہ بھی روانی سے جڑا ہے

ہائیکو
۔۔۔۔۔
کیسی مہنگائی
غربت سے تنگ آکر ماں
بچے بیچ آئی

ہر گھر روشن ہے
جانے میرے گھر کا کیوں
سورج دشمن ہے

سرسی چھند دوہا
۔۔۔۔۔
باپ ہوا ہے بوڑھا پھر بھی محنت کرنےجائے
سچ کہتا ہے نہیں تو اس کو روٹی کون کھلائے

جس کے پاس ہے دولت شہرت ساتھ چلے سنسار /
سب کے لبوں پر ایسے منش کی دیکھی جےجے کار

دوہا چھند
۔۔۔۔۔
میں بھی لکھتی ہوں غزل پاس مرے ہیں نیر
میرے رہبر رہنما غالب مومن میر

کہہ مکرنی
۔۔۔۔۔
کیسا برگ و بار شجر ہے
سایہ بھی اس کا گھر گھر ہے

اس کے بنا جیون ویراں
اے سکھی رب . نا سکھی ماں
_
تروینی
۔۔۔۔۔
دنیا کی دوزخوں میں انسان جل رہا ہے
جنت کی حسرتوں میں خود کش بھی پل رہا ہے
تہذیب کا جنازہ شاید نکل رہا ہے

رباعی
۔۔۔۔۔
ملتا ہے زمانے کو بھی محنت سے کمال
آتا ہے ہر اک شے پہ زمانے میں زوال
اک بار ملا کرتی ہے دنیا میں حیات
رہتا ہی نہیں حسن سراپا یہ جمال

Leave a reply