صدائے ضمیر:فلاح کی رہ گزر …!!!
(تحریر:جویریہ بتول)۔
فلاح کی رہ گزر۔۔۔دلوں کا بوجھ ہلکا کر دینے والی۔۔۔۔خوشی و غمی کے موقع پر صبر و شکر کرنے کا طریقہ۔۔۔۔ !!!
آزمائش و فتح کی گھڑیاں ہوں۔۔۔۔یا قحط و خشک سالیاں۔۔۔
سفر ہو یا حضر۔۔۔۔بیماری ہو یا تندرستی۔۔۔جنگ ہو یا امن
جوانی ہو کہ بڑھاپا۔۔۔
یہ فرض ہر حال ادا کرنا ہے۔۔۔دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہی جس رکن کی ادائیگی پھر تادمِ آخر فرض ہو جاتی ہے۔۔۔۔
جو کسی صورت معاف نہیں ہے۔۔۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔۔۔گواہی دینا کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ کے رسول ہیں،نماز قائم کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(صحیح بخاری_کتاب الایمان)۔
جسے دین کا ستون کہا گیا کہ اس ستون کی مضبوطی سے عمارت قائم ہے،یہ ستون گرا تو عمارت گئی۔۔۔ !!!!
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"تمام معاملات کی اصل اسلام ہے،اور اس کا ستون نماز ہے۔”
(ترمذی_کتاب الایمان)۔
اللّٰہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ:
"اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی نماز کا پابند کیجیئے۔۔۔”(طٰہٰ:132)۔
پیارے نبی کی خدمت میں جو بھی پہنچ کر اسلام قبول کر لیتا تو اسے سب سے پہلے نماز سکھائی جاتی۔۔۔
پیارے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سینۂ اطہر پر اترنے والے قرآن کی تعلیم تھی:
"بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت پر پڑھنا فرض ہے”۔
(النسآء:103)۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اللہ کے محبوب عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
اوّل وقت پر نماز۔
(رواہ البخاری)۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فوراً نماز کی طرف رجوع کرتے۔۔۔اس رجوع کا مطلب اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر اپنے راز و نیاز دل کھول کر رکھ دینا ہے۔۔۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے،جب وہ سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے”۔
(رواہ مسلم)۔
مگر آج ہم نام کے مسلمان ہو کر بھی گھرانوں کے گھرانے بے نماز۔۔۔۔بچوں کی تربیت میں یہ چیز شامل ہی نہیں کرتے۔۔۔
مسائل و پریشانیوں کے گھیروں میں گھِرے،ان سے نکلنے کے فن سے نا آشنا۔۔۔
وقت پر وقت گزرتے ہیں نماز کے۔۔۔
مگر ہمیں وقت نہیں ملتا۔۔۔
وہ اللہ سے مضبوط تعلق قائم رکھنے والی ڈوری۔۔۔اپنے معاملات و مسائل شیئر کرنے اور ان سے نجات کی التجائیں کرنے کے مواقع۔۔۔جن سے ہمارا پروردگار خوش ہوتا اور اپنے بندے کے اس عمل کی قدر فرماتا ہے۔۔۔۔ !!!

خشوع و خضوع سے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جو دعا مانگی جائے،بابِ قبولیت سے ضرور گزرتی ہے۔۔۔
اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
"یقیناً کامیاب ہو گئے ایمان والے،جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرتے ہیں۔۔۔”
(المؤمنون:1،2)۔
اللّٰہ تعالٰی نے اپنے پسندیدہ بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
"جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔۔۔”
(المعارج)۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
قیامت والے دن سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا۔۔۔۔(ترمذی_کتاب الصلوۃ)۔
اب سوچیئے کہ اگر پہلے سوال کا ہی جواب نہ دے سکے تو۔۔۔۔؟؟؟
نماز بے حیائی و فحاشی کے کاموں سے رکاوٹ،چہرے کا نور،روح کا سرور ہے۔۔۔
اپنے پروردگار کی قربت کی علامت اور محبوب پیغمبر محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت کا سامان ہے۔۔۔
کہ اپنے صحابی کی جنت میں قربت کی خواہش پر فرمایا:
کثرتِ سجدہ سے میری مدد کر۔۔۔
(صحیح مسلم_کتاب الصلوۃ)۔

واقعی بات گراں ہے۔۔۔۔تھوڑے سے وقفے کے بعد پھر نماز کی تیاری مشکل لگتی ہے مگر اس کی وضاحت بھی اللہ تعالی نے خود فرما دی کہ
انھا لکبیرۃ الا علی الخشعین¤
(البقرۃ)۔
یہ خشیت الٰہی سے سرشار دلوں پر گراں نہیں،بلکہ راحت و آسودگی کا ذریعہ ہے۔۔۔ !!!
چاہیئے کہ موقع خوشی کا ہو یا غم کا،ہماری اور ہمارے بچوں کی نمازیں ضائع نہ ہوں،
بلکہ وہ ان مواقع کو خوب صورتی سے ڈیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔۔۔۔
کیسے نا معقول اور نا قابلِ قبول بہانے ہم بناتے ہیں کہ وقت نہیں ملتا۔۔۔
ہم کاروبار،روزگار کی جگہوں پر ایک منٹ لیٹ پہنچنا گوارہ نہیں کرتے یا اسے ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں تو کیا ہمارا رب ہم سے نظم و ضبط اور مقررہ وقت پر نماز ادا کرنے کا مطالبہ کرے تو ہم اپنے رازق و مالک کی بات کی پرواہ نہیں کرتے۔۔۔؟؟؟
نہیں یہ سب محبتوں کی سوداگری ہے ناں ؟
جتنی محبّت شدید ہو گی۔۔۔اُتنی ہی فرض کی ادائیگی بھی خوش دلی سے ہو گی۔۔۔ !!!!!
پتہ ہے ناں۔۔۔جب کڑاکے کی سردی میں نرم و گرم بستر سے نکل کر ٹمٹماتے تاروں سے بھرے اسمان اور روشن چاند پر ہم نگاہ ڈالتے ہیں۔۔۔
یا گرمی میں اے سی کی ٹھنڈ سے اُٹھ کر عارضی سکوں سے ابدی سکون کا سفر کرتے ہیں…
تو ہواؤں کے سُر میں تالیاں بجاتے درختوں کے پتے اوقاتِ سحر میں رگوں میں کیسی پیاری ٹھنڈ بھر دیتے ہیں۔۔۔؟
وہ ٹھنڈ اپنے پروردگار کے حکم پر عمل کرنے کی خوشی کی ٹھنڈک ہوتی ہے ناں۔۔۔؟
جو دل کے دریچوں میں اُتر کر سرور و انبساط کی دولت سے مالا مال کر رہی ہوتی ہے۔۔۔۔
اور فرش پر رکھی پیشانی۔۔۔۔
سجدہ کی حالت میں نکلتی بخشش و فلاح اور رب کی رحمت و رضا کی دعائیں۔۔۔ابدی بہاروں کا سامان پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔
فاذکرونی اذکرکم واشکرولی ولا تکفرون¤
(البقرۃ:152)۔
پھر یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے رب کو یاد کر رہے ہوں اور وہ ہمیں یاد نہ کرے۔۔۔۔؟؟؟
اور بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اسے بھُلا دیں اور وہ اس بات کا حساب نہ رکھتا ہو۔۔۔۔ :
استحوذ علیھم الشیطنُ فَاَنسٰھم ذکراللّٰہ۔۔۔۔(المجادلہ:19)۔
"شیطان نے ان پر غلبہ حاصل کر لیا،اور انہیں اللّٰہ کا ذکر بھُلا دیا۔”
کوشش کیا کیجیئے کہ آپ کی نمازوں میں خلل واقع نہ ہونے پائے۔۔۔اپنے زیرِ نگرانی لوگوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کیجیئے۔۔۔
یہ دنیا متاعِ قلیل ہے۔۔۔اور موت بغیر اطلاع کے آنے والی حقیقت ہے۔۔۔۔
سب مصروفیات ختم ہو جائیں گی اور پھر۔۔۔۔۔؟؟؟؟
یاد رکھیئے کہ بہت سے مسائل کا حل صرف پیشانی اور زمین کے درمیان معلق ہوتا ہے…
اور فلاح کی بہترین رہ گزر یہ نماز ہے،اسے فارغ رہ کر بھی،وقت پاکر بھی غفلت،سستی اور بہانوں کی نذر نہ کیا کیجیئے…
یہ روح کا سکون اور اطمینان ہے…
دلوں کو بوجھ سے آزاد کرنے کا بہترین نسخہ ہے کہ جب اپنے غم و پریشانی کا حال کھول کر رکھ دیا جائے…
ہمیں چاہیئے کہ ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے رب کی بندگی کا حق ادا کریں تاکہ روزِ محشر ہمارا شمار ان خوش نصیبوں میں ہو،جن کے بارے میں اعلان ہو۔۔۔
"اے میرے بندو !!!
آج تم پر کوئی خوف و ہراس ہے نہ تم غمناک ہو گے۔
جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے،اور تھے بھی(فرمانبردار)مسلمان۔
تم اور تمہاری بیویاں،خوشی و راضی جنت میں داخل ہو جاؤ۔۔۔”(الزخرف :68،69،70)۔
آمین ثم آمین۔
{جویریات ادبیات}۔
==============================

Shares: