دو دن کی محبت تحریر:اسامہ اسلام

0
56

نومبر کا مہینہ تھا. ہمارے ایک چچا زاد شہیر جو کہ اپنے والدین کا اکھلوتا بیٹا تھا ,اس کی شادی کی تقریب میں کچھ دن رہ گئے تھے. یہ خوشی ہم پر کافی عرصے بعد آئی تھی اس لیے گھر کا ہر فرد انتہائی خوش دکھائی دیتا تھا.
میں چونکہ بچپن سے تنہائی پسند تھا اور اکیلے رہنے میں مجھے سکون ملتا تھا , مجھے اس میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی. شادی سے ایک دن پہلے ,مہندی والی رات میں اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر اپنا کام کر رہا تھا کہ اچانک سے میرے سارے کزن منگولوں کے لشکر کی طرح میرے کمرے میں گھس آئے اور کہنے لگے کہ تمھاری امی نے تمہیں طلب کیا ہے.
میرا جی تو نہیں کر رہا تھا لیکن امی کا نام سن کر میں اپنے کزن کے ہمراہ شادی کی تقریب میں چلا گیا.
نومبر کی راتیں, سردی اپنا زور دکھا رہی تھی لیکن شادی کی تقریب میں اتنی ہلچل مچی ہوئی تھی کہ سب پسینے میں شرابور دکھائی دے رہے تھے.
میں چادر اوڑھ کر چچا کے گھر ایک کھونے میں بیٹھ گیا اور امی سے ایک کپ چائے کا کہا. میں بچپن سے ایک ہی نشہ کرتے آرہا ہوں اور وہ ہے چائے کا نشہ. چائے کے بغیر بھی بھلا کوئی زندگی ہوتی ہے.
میں اسی کھونے میں بیٹھ کر چائے پینے لگا, اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی مجھ پر نظر جمائے کافی دیر سے گھور رہا ہے جسے ہم (peripheral vision) َ بھی کہتے ہیں. میں نے جب غور سے دیکھا تو ایک خوبصورت, جوان ,کھلے لمبے بال ,کالے رنگ کا جوڑا ,ہاتھوں میں مہندی اور کالی کالی بڑی بڑی آنکھوں والی صنفِ نازک میری طرف کافی دیر سے دیکھ رہی تھی.
میں نے اس کو دیکھ کر اپنا سر جھکایا اور چائے کا سپ لیا, لیکن میری نظریں غیر ارادی طور پر اس کا طواف کرنے لگی. ایسا دوسری بار بھی ہوا. تیسری بار جب میں نے اس کی طرف دیکھنا چاہا تو وہ میرے پاس آ کھڑی تھی , اس نے سلام کیا اور میرا حال پوچھا. میرے منہ سے بس اتنا ہی نکلا "الحمد للہ”.
"میں نے آپ کو پہچانا نہیں؟” میں نے اس سے پوچھا.
"ہاں کیسے پہچانو گے, اپنے کمرے سے نکلو گے, اپنے رشتہ داروں کے گھر جاؤ گے , حال چال پوچھو گے تو ہی پہچانو گے نا مسٹر شہروز” اس نے ہنس کر جواب دیا.
وہ میرا نام جانتی تھی.
میں نے پوچھا تمھارا نام کیا ہے؟
"حیا” بس اتنا کہہ کر وہ واپس چلی گئی ,شاید کوئی اس کو آواز دے رہا تھا.
میں اپنے گھر آیا , اپنے کمرے میں, رات کے ۲ بج رہے تھے, میں نے سونے کی کوشش کی لیکن اس کا چہرہ اور اس کی باتیں میرے دماغ میں منڈلا رہی تھی. پھر انہی سوچو میں پتہ نہیں کب آنکھ لگ گئی .
صبح جلدی اٹھا اور اپنے چچا کے گھر چلا گیا, وہ تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلی اور میں دیکھتا ہی رہ گیا. یا تو ایسا حسن میں پہلی بار دیکھ رہا تھا یا شاید میں نے اس سے پہلے کبھی دیکھنا گوارا نہ کیا تھا.
رات کو کالے جوڑے میں وہ جتنی پیاری لگ رہی تھی اس سے زیادہ تو وہ دن کو گلابی رنگ کے جوڑے میں لگ رہی تھی. کہتے ہیں "انسان فطرتی طور پر حسن پرست ہے” اور اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا .
اس کو دیکھنے کے لیے میں کسی بہانے گھر آتا اور اس کو ایک نظر دیکھ کر واپس چلا جاتا لیکن جس طرح میں اس کو دیکھنے آتا, اسی طرح وہ بھی میری منتظر دکھائی دیتی کیونکہ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ سی آجاتی.
شاید مجھے اس سے محبت ہو گئی تھی. اس کی ایک جلک میرے دل کو پارہ پارہ کر دیتی. لیکن مجھے اس بات کا غم تھا کہ کل یہ لوگ اپنے گھر جائیں گے ,پھر شاید ملاقات ہو یا نہ ہو. اور اوپر سے میں اتنا ڈرپوک تھا کہ اپنی محبت کا اظہار کرنا تو دور کی بات , اس کا حال پوچھنا بھی میرے لیے محال تھا.
رات کے ١١ بج گئے تو سارے دن کی تھکاوٹ تھی, میں اپنے گھر کو چلا گیا اور اپنے بستر پر گرتے ہی ایسے سو گیا جیسے تیسری جنگ عظیم لڑ کر آیا ہوں.
صبح اٹھا تو ہر طرف خاموشی تھی, معمول کے مطابق صبح اٹھ کر میں نے پہلے امی کو آواز دی.
"وہ فوتگی پر گئی ہے” بھابھی نے باہر سے جواب دیا.
"ہے؟ فوتگی؟ کس کی فوتگی؟” میں کمرے سے باہر آیا اور پوچھا.
"رات کو مہران , فیزان اور علی (میرے چچازاد) آتش بازی اور فائرنگ کر رہے تھے تو علی کے ہاتھ سے بندوق چوٹی اور ایک گولی خان پور سے آئے مہمانوں کی ایک لڑکی حیا کو لگی, صبح صبح اس کا انتقال ہو گیا” بھابھی نے جواب دیا.
یہ سن کر جیسے میرے پیروں سے کسی نے زمیں کھینچ لی ہو.
میں اپنے کمرے میں واپس گیا اور نہ چاہتے ہوئے اتنا رویا کہ جتنا رویا جا سکتا تھا .
کپڑے بدل کر اس کے جنازے پر چلا گیا اور اپنی دو دن کی محبت کو انور مسعود صاحب کے اس درد بھرے شعر کے ساتھ سپرد خاک کیا.

"خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپرد خاک کیا "

Leave a reply