خبردار! ٹیکس چھپاو گےتو پکڑے جاو گے ، آف شور ٹیکس بچانے پر جیل اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا

0
82

اسلام آباد:عمران خان کی حکومت معاشی فیصلےکرنے میں بڑی تیزی سے کام لے رہے ہیں اور ٹیکس سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات جاری ہیں . تازہ ترین فیصلے کے مطابق وفاقی بورڈ آف ریونیو نے کہا ہے کہ آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے ٹیکس بچانا قابل سزا جرم سمجھا جائے گا اور جو اس میں مجرم پایا گیا اسے یا تو بھاری جرمانے ادا کرنے پڑیں گے یا پھر 3 سال تک جیل کی سزا کاٹنی پڑے گی۔

ایف بی آر کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق فنانس ایکٹ 2019 کے ذریعے متعارف کروائی گئی ترامیم کے مطابق جاری کیے گئے سرکولر میں کہا گیا کہ یہ ترامیم آف شور ٹیکس بچانے والے نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کریں گی۔اور حقائق چھپانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا

اسلام آباد سے ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی طرف سے ان ترامیم کے ذریعے بدعنوانیوں اور ریئل اسٹیٹ ٹرانزیکشنز میں ملوث ٹیکس نادہندگان، مفرور افراد، معاونت کار، عہدیدار اور افراد سے متعلق قانونی فریم ورک گورننس کے لیے مختلف تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔یہ ترامیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تجاویز کی روشنی میں سامنے آئی ہیں۔

دوسری طرف ایف بی آر نے جرمانے کی شرح رکھی ہے اس کے مطابق حکومت کی جانب ایک لاکھ روپے یا غیرظاہرشدہ آف شور اثاثوں سمیت ٹیکس بچانے کی 200 فیصد برابر رقم جرمانہ رکھا ہے۔

حکومت کی طرف سے تیار کیا گیا فنانس بل جس کے مطابق انکم ٹیکس کمشنر کو آف شور اثاثے ظاہر کرنے میں جو ناکام رہتا ہے یا آفشور اثاثوں کی غلط تفصیلات اور ان وجوہات کو چھپاتا ہے جس سے آمدنی پر اثر پڑتا ہے یا ایک کروڑ یا اس سے زائد کی تفصیلات ظاہر کرتا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے جس کی سزا 3 سال قید یا 5 لاکھ روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں ہوگی۔

اوکاڑہ :ہمسائے سے تعلقات پر بیوی کو قتل کردیا

آف شور کمپنیوں کے ٹیکس چھپانے والوں کے بارے میں ایف بی آر نے طئے کیا ہے کہ کہ ایسا شخص جو ایک آف شور اثاثے کا مالک، حامل، کنٹرول رکھنے والا یا بینیفشل مالک ہو اور وہ اسے ظاہر نہ کریں یا انکم ٹیکس کمشنر کو ایسے اثاثے کا صحیح تفصیلات فراہم نہ کرے۔

آف شور کمپننیوں کے ٹیکس چھپانے والوں کو سخت سزا کے طور پر یہ قانون بھی بنایا گیا ہے کہ کمشنروں کو یہ اختیار ہے کہ آفشور دائرہ کار کے تحت موصول معلومات کی بنیاد پر ان افراد کے مقامی اثاثے منجمد کریں، جنہیں وہ ایک فلائٹ رسک کے طور پر تصور کرتے ہیں یا جرمانے سے بچنے کے لیے اپنے ان اثاثوں کو ضائع کرسکتے ہیں۔

ایف بی آر کی دستاویزات کے مطابق وہ افراد بھی نہیں بچ سکیں گےجو اس جرم میں معاونت کریں گے . اس قانون کے مطابق ایسے افراد کو جرائم پیشہ افراد کو ڈیزائن، بندوبست کرنے یا لین دین کے معاملے کا انتظام کرنے کے لیے مشورہ دیں یا معاونت کریں، جس کا نتیجہ آف شور ٹیکس بچانے کی صورت میں نکلے تو ایسے افراد کو بھی 7 سال تک جیل یا 50 لاکھ روپے جرمانہ یا پھر دونوں سزائوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایف بی آر نے غیر منقولہ جائیداد پر ایک شرح طئے کردی ہے جس کے مطابق کوئی بھی شخص 50 لاکھ سے زائد مارکیٹ ویلیو رکھنے والی غیر منقولہ جائیداد کو نقد یا بیئرر چیک کے ذریعے خریدتا ہے تو اسے ایف بی آر کی جانب سے مقرر کی گئی جائیداد کی قیمت کا 5 فیصد جرمانے کے طور پر ادا کرنا ہوگا۔

آف شور کمپنیوں کے حوالے سے طئے فارمولے کے مطابق ایسے افراد کو سرجارچ کی مد میں کمپنی کے معاملے میں 20 ہزار روپے، اے او پی کے کیس میں 10 ہزار روپے اور ایک فرد کے طور پر ایک ہزار روپے دینے ہوں گے۔

حکومت نے فنانس ایکٹ 2019 کے ذریعے نان فائلر کے تصور کو ختم کرتے ہوئے اے ٹی ایل میں شامل نہ ہونے والے افراد سے متعلق نیا تصور متعارف کروایا گیا ہے، ایسے افراد جن کا نام اس فہرست میں نہیں شامل ہوتا ان پر ٹیکس کی شرح میں 100 فیصد مشروط اضافہ ہوگا۔

Leave a reply