دوہرا معیار اور معاشرتی بگاڑ تحریر: نصرت پروین

ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ تمام مذہبی اور معاشرتی تعلیمات سب کے لئے مساوی ہوں اور حکمران اور نوکر سب کے لئے ان تعلیمات کا نفاذ بلا تفرہق ہو۔ مذہبی اور معاشرتی تعلیمات اور اصول و ضوابط کسی بھی معاشرے میں وہی مرکزی حثیت رکھتے ہیں جو انسانی جسم میں قلب رکھتا ہے۔ کسی بھی انسانی معاشرے میں بہترین زندگی گزارنے کی عملی صورت وہاں کی مذہبی اور معاشرتی تعلیمات کی پیروی ہے۔ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے۔ اور اصول و ضوابط امیر، غریب، حکمران، نوکر، سب کے لئے مساوی ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا نظام اس کے برعکس ہے ہماری مذہبی و معاشرتی تعلیمات اصول و قوانین صرف غریب کے گرد گھومتے ہیں جبکہ حکمران اور سیکولر طبقے کا ان سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ تمام برائیوں کا گہوارہ بنتا جارہا ہے۔ اور صورتِ حال کافی تشویشناک ہے۔ آج سے کچھ سال قبل اخبارات میں جرائم اور برائی سے متعلق خبریں پڑھ کر یا سوشل میڈیا پر برائی کا سن کر اطمینان ہوتا تھا اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ الحمدللہ ہمارے مسلم افراد کا نام نہیں ہے۔ لیکن آج مسلم معاشرے میں بے حیائی کی ایسی وبا پھیلی کہ اب اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے جرائم کی خبروں کا صفحہ کھولا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پہ جہاں کہیں برائی اور جرائم کی خبر ملتی ہے تو مسلمان ملوث نظر آتا ہے۔ وہ تمام برائیاں جو پہلی قوموں میں تھیں اور ان کی بناء پر انہیں اللہ کے غضب نے گھیرا آج کا مسلم معاشرہ ان تمام برائیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اصول و ضوابط اور سزا کا نظام صرف غریب اور نچلے طبقے کے لئے، یا مذہب سے بیزار ہوکر مولوی تک محدود کر دیا گیا ہے جب کہ سیکولر اور امیر طبقہ ان اصول و ضوابط اور سزاؤں کو نظر انداز کر کے بہیمانہ افعال انجام دیتا ہے تو اس کا دفاع کیا جاتا ہے بلکہ اسے سراہا جاتا ہے۔ کوئی مولوی یا غریب کوئی برائی کرے تو اس پر قانون لاگو کر کے فوراً سزا دی جاتی ہے اس کے بر عکس اگر یہ ہی جرم کوئی حکمران، اور سیکولر طبقے کا کوئی فرد کرے تو اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس سب کی جیتی جاگتی مثال گزشتہ دنوں میں محمد زبیر کی وائرل ہونے والی ویڈیو اور پھر ان پر انکے حکمرانوں کا انکا دفاع کرنا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی کی ٹوہ میں نہیں لگنا چاہیے اس طرح کسی کے برے عمل کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنا بہر حال گناہ ہے اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر انسان کسی کا ایسا کوئی عیب دیکھے تو خود اس شخص سے شئیر کرے اور اسے اس گناہ سے بچنے کی ترغیب دے لیکن ہمارا معاملہ یہاں بھی المناک ہے سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کی تعلیمات کے مطابق کہ "برائی کو نشر نہ کیا جائے بلکہ برا سمجھا جائے اور روکا جائے” کو نظر انداز کر کے اس برائی کو پھیلانا اور دکھانا اپنا بہترین مشغلہ سمجھتا ہے۔ اس طرح دوسرے لوگوں تک ایسی ویڈیوز کو گناہ جاریہ کے طور پر شئیر کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً معاشرے میں فحاشی عام ہوجاتی ہے اور پھر ہمارے حکمران ایسے ہیں جو اپنی تنگ نظری کی بدولت تمام انسانیت کے مساوی تقاضوں کو نہیں دیکھ سکتے بلکہ ایسے حکمران مصالح کلیہ سے نظریں چرا کر جزوی مصلحتوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اور پھر فحش اعمال پر اپنے ساتھیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ پھر حکمرانوں کے ان اعمال کے سبب معاشرے میں بگاڑ پھیل جاتا ہے۔ لہذا بگاڑ سے بچنے کے لئے حکمرانوں کو اس معاملے میں ایکشن ضرور لینا چاہیے بطور مسلم معاشرہ ہمارے حکمرانوں کو مذہبی تعلیمات کا بہترین علم ہونا چاہیے اور ان کا نفاذ بھی کرنا چاہیے۔ لیکن اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور پھر لوگ قیادت میں آکر ایسے فحش اعمال انجام دیتے ہیں جن کے سبب معاشرے میں بگاڑ پروان چڑھتا ہے۔ ایسی صورت میں معاشرے کا اخلاقی نظام بلکل پست ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے حکمرانوں کی اندھا دھند تقلید کرتے ہوئے گمراہی کے گڑھے میں گر جاتے ہیں۔ حکمران اور اونچے طبقے کے لوگ عیش و عشرت میں اتنا مگن ہوجاتے ہیں کہ انہیں مادی دنیا سے نکلنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ ایسی صورت میں معاشرے کے افراد اخلاقی اور روحانی تقاضوں سے بے توجہ ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ زائد مال و دولت کا مالک بن کر فحش اعمال کا عادی جاتا ہے اس کے مقابلے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد فاقے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اس طرح مالدار طبقے کو مال کی زیادتی اور محتاج طبقے کو اس کی کمی نکما کر دیتی ہے۔ دونوں گروہ اخلاقی عیوب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ تشوشناک صورتِ حال آج ہماری ہے۔
ان سارے حالات کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم سب ہیں جہاں ہمارے حکمران غلطی کرتے ہیں ہم بھی ان کی اندھا دھند تقلید کرتے ہوئے بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔ اور پھر ان کا دفاع کیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ دوہرے معیار کو ترک کرتے ہوئے کوئی بھی فرد جرم کرے اسے ضرور سزا دی جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی قومیں اسی لئے برباد ہوئی کہ جب کوئی بڑے طبقے کا فرد جرم کرتا تو اسے معاف کر دیا جاتا اور اگر نچلے طبقے کا کوئی فرد جرم کرتا تو اس سزا دی جاتی۔ یہ ہی دوہرا معیار آج ہمارا ہے۔ ہم سب جہاں بھی ہوں دوہرے معیار کو اپناتے ہیں جزوی مصلحتوں کو اپناتے ہیں۔ اگر ہم معاشرے میں بگاڑ کا خاتمہ اور امن کا قیام چاہتے ہیں تو ہم سب کو بطور فردِ واحد دوہرا معیار چھوڑنا ہوگا تب ہی معاشرے کی بقا ممکن ہے۔
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
از قلم نصرت پروین
@Nusrat_writes

Comments are closed.